ہفتہ، 19 جنوری، 2013

من شریف ؟ انا شریف

یہ واقعہ ہے "شریف" دور کا (یہ ٹو تھرڈ ،مینڈیٹ  والے شریف نہیں ) ذکر ہو رہا ہے شریف مکّہ کے دور کا جب سرزمین عرب سونا نہیں اگلتی تھی غربت کا دور تھا اور انارکی پھیلی ہوئی تھی جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد سورج برطانیہ غروب کے قریب تھا شیخ الحدیث مولانا زکریا رح کی جوانی کا دور تھا آپ سرزمین عرب میں مکّہ اور مدینہ کے درمیان محو سفر تھے عرب بدوی اس وقت کے واحد زریعہ سفر اونٹوں کے مالک تھے اور جب انسے انکے کسی ظلم پر کہا جاتا تمہاری شکایات شریف سے کر دی جاۓ گی تو وہ جواباً کہتے ،،

من شریف ؟ انا شریف  " کون شریف؟ میں ہوں شریف "

فطرت انسانی کی بوقلمونیاں عجیب و غریب ہیں یہ  کمزور مخلوق ذرا سی طاقت حاصل ہونے کے بعد" میں خدا ہوں !! کا نعرہ لگانے سے گریز نہیں کرتی مسلسل فنا کی دہلیز پر کھڑی یہ ہستی جانتی ہے اگلا قدم موت کی وادی میں لیجا سکتا ہے لیکن اس کو  کوئی پرواہ نہیں چند لمحے جو ادھار ملے ہیں ان میں صدیوں کی  منصوبہ بندی انسان ہی کا کمال ہے ،

گروہ بندی اور اجتماعیت اسکی بہترین معاشرتی قووتیں ہیں جنکی بنیاد پر تہذیب انسانی ارتقائی منازل تے کرتی ہے  کسی بھی گروہ کو جوڑنے والے اور چلانے والے کئی محرک ہو سکتے ہیں قومی قبائلی نظریاتی یہ پھر مذہبی عنوانات مگر ان سب کا بنیادی جوہر باہمی مفاد یہ پھر مشترکہ مفادات ہیں ،

مفادات کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے کہیں خیر اور کہیں شر کے عنوانات واضح ہوتے ہیں اس خیر اور شر کے توازن کے لیے کچھ اصول مرتب کئے جاتے ہیں یا  پھر فطری طور پر ہو جاتے ہیں تاکہ نظم اجتماعی قائم رہے ،،،
یہ نظم اجتماعی بقاء باہمی کے لیے لازم ترین امر ہے اسکے بغیر بقاء باہمی نا ممکن ہے اگر یہ نظم اجتماعی نہ ہو تو ہر بڑی قوت چھوٹی قووتوں کو کھا جاۓ اور انسانی معاشرہ جانوروں کا معاشرہ بن کر رہ جاۓ ،

یہ اصول اور قوانین مرتب کرنے والی قوت یا تو شعور انسانی ہے جسمیں غلطی کا احتمال انسانی کی فطرت کے تحت عین ممکن ہے یا  پھر الله کا نازل کیا ہوا قانون !!!!!!
وہ تمام معاشرے جو اپنی فطرت سلیم سے ہٹ جاتے ہیں اور کسی بھی قانون کی پاسداری وہاں موجود نہیں رہتی ان معاشروں میں اگر کوئی قانون باقی رہتا ہے تو وہ جنگل کا قانون کہلاتا ہے جسمیں بنیادی مقصود اپنی بقاء کی جنگ ہوتا ہے چاہے اسکیلئے دوسروں کو شکار ہی کیوں نہ کرنا پڑے ایسا معاشرہ ایک وحشی معاشرہ ہوتا ہے ،

"مافیا" اطالوی زبان کا لفظ ہے جسکی جاۓ پیدائش سسلی ہے اسکا وجود اٹھارویں صدی کے اواخر اور  انیسویں صدی کے اوائل میں ہوا تھا سسلی کا یہ مافیا سب سے پہلے ایک لسانی تنظیم کے طور پر وجود میں آیا جو ہسپانوی نژاد باشندوں کے سیاسی اور معاشی اقتدار کے خلاف بنی۔ ان کی شروع شروع کی کاروائیاں خفیہ تھیں۔ لیکن انہوں نے اپنے آپ کو ایک سیاسی تنظیم کے طور پر پیش کیا جو سسلی کے عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہو۔ ان لوگوں نے اپنی صفوں میں ایسے غنڈے بھرتی کر رکے تھے جو حکومت، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف استعمال ہوتے۔ کیونکہ یہ لوگ ایک ایسے شہر میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے جو تجارتی مرکز بھی تھا اور بحیرہ قلزم کی ایک اہم ترین بندرگاہ بھی۔ اس لئے انہیں حکومتوں کو دباؤ میں لانا بہت آسان تھا۔ یہ وہ دور تھا جب اس علاقے میں انارکی، قانون کی عدم موجودگی اور حکومتی اختیار کی بے بسی نمایاں تھی۔١٨٤٨ سے ١٨٦٠ تک مافیا نے اپنے آپ کو سسلی کا بلاشرکت غیرے مالک بنائے رکھا،

آج اس مافیا کلچر نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جسکی لاٹھی اسکی بھینس کا قانون ہر جگہ لاگو ہے مفادات کی شراکت کے تحت بننے والے ہر گروہ کے ساتھ "مافیا" جڑا  نظر آتا ہے پیٹرول مافیا ، بھتہ مافیا ، سیاسی مافیا ، سرکاری مافیا ، دودھ مافیا ، ذخیرہ اندوز مافیا اور تو اور اب تو ڈاکٹر اور وکیل مافیا بھی میدان میں آ گۓ ہیں 
افسوس تو یہ ہے کہ وہ معاشرے  جو اسلامی کا لاحقہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں وہاں بھی "مافیا " اسی اب و تاب کے ساتھ پرورش پا رہے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جانے کہ انکی افزائش دو چند ہے تو غلط نہ ہوگا !

گروہی عصبیت ایسی دیمک ہے جو معاشروں کو خاموشی مگر تیز رفتاری سے کھوکھلا کرتی ہے اور لاٹھی کے ٹوٹنے پر معلوم پڑتا ہے کہ دکھائی دینے والی قوت کب کی رخصت ہو چکی تھی ،،،،،،،

اپنے ارد گرد نظر ڈالیں بہت خلوص سے کھڑی ہونے والی تحاریک کس طرح گذرتے دور کے ساتھ "مافیا" کی شکل اختیار کرتی چلی گیں امین احسن اصلاحی مرحوم کا جملہ یاد آ رہا ہے " جماعتیں مقاصد کو لیکر کھڑی ہوتی ہیں لیکن انکو مغالطہ جب لگتا ہے جب وہ جماعت خود مقصود بن جاۓ '

انحطاط اور پستی کی انتہا اسوقت دکھائی دیتی ہے جب لسانی اور قومی تحاریک چھوڑ خالص فکری اور دینی تحاریک بھی "مافیا" کی شکل اختیار کر جائیں ،

اب آئیں ذرا دین حق کا مزاج ملاحظہ کرتے ہیں !!!

وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا١ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِ١ۚ فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۰۰۹اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَؒ۰۰۱۰
اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کراؤ پھر اگر ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس زیادتی والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے، پھر اگر پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ ان میں اصلاح کردو اور عدل کرو، بیشک عدل والے اللہ کو پیارے ہیں،  

لیکن بات یہاں تک  کی ہی  نہیں "قسط " تقاضہ اس سے بڑھ کر ہے يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْۤا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ۰۰۶ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس  کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔٨  خوب جان رکھو کے تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے

بلا تحقیق کسی پر بھی جا پڑنا اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے گروہی عصبیت میں اندھے ہو جانا کسی بھی درجہ میں اسلام کا منشا و مقصود نہیں سوال مسلمانو کے باہمی جدل کا ہی نہیں بلکہ دشمنوں پر بھی ظالم بن کر جا پڑنا "قسط " کے خلاف ہے ،

میرا خاندان میرا قبیلہ میری جماعت میرا طبقہ میرا گروہ میری قوم یا پھر میرے ہم پیشہ بھائی بند جہاں بھی جس بھی درجہ میں مفادات اصولوں پر فائق ہونگے "مافیا " جنم لیتے رہینگے ..........

حسیب احمد حسیب 
  




پیر، 14 جنوری، 2013

جشن احمد صل الله علیہ واسلام !


جشن احمد صل الله علیہ واسلام  !

ہر سال ربیع الاول کی آمد کے ساتھ ہی میلاد نبوی صل الله علیہ وسلم کی دینی بحث شروع ہو جاتی ہے اور خلقت کثیر اسکے جواز یا انکار کی بحث میں مبتلا ہوتی ہے

کیا کوئی مسلمان ایسا ہو سکتا ہے جسکو نبی صل الله علیہ وسلم کی خوشی نہ ہو اختلاف اسکے مشروع ہونے یا نا ہونے میں ہوتا ہے ایک گروہ کہتا ہے یہی تو موقع ہے نبی صلعم سے محبّت کے  اظہار کا

اور دوسرا کہتا ہے یہ سب ثابت کہاں سے ہے نبی صلعم کی زندگی سے یہ پھر اصحاب رسول رض کے طریقے سے

اس تمام شرعی بحث میں پڑے بغیر دین کے مزاج اور الله کے رسول کی زندگی کو سمجھا جاۓ  آخر انبیا کی بعثت کا مقصود کیا ہے انھیں اس دنیا میں کیوں بھیجا جاتا ہے دین ہم سے کس بات کا تقاضا کرتا ہے،

جب بھی اقوام عالم گمراہی اور فتنہ میں مبتلا ہوئی ہیں انبیا علیہ سلام کو معبوث کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کو اس گمراہی سے نکال کر راہ راست پر لایا جا سکے ،
شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰی بِه نُوْحًا وَّالَّذِیْۤ اَوْحَيْْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْْنَا بِهۤ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰی وَعِيْسٰۤی اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ.(٤٢: ١٣)
''اس نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کی ہدایت اس نے نوح کو فرمائی اور جس کی وحی ہم نے تمھاری طرف کی اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا، اس تاکید کے ساتھ کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ پیدا کرنا۔''

یہاں قرآن سے ہدایت حاصل کرنے پر معلوم پڑتا ہے کہ مقصود انبیا علیہ سلام دین پر قائم ہونا یہ پھر دین کو قائم کرنا ہے اگر الله کے رسول صل الله علیہ وسلم سے ہدایت حاصل کی جانے تو دین کا منشا معلوم ہوگا ،
 حجتہ الوداع سے واپسی کے بعد ایک دن آنحضرت علیہ سلام  صحابہؓ  کرام کے درمیان مسجد نبوی میں تشریف فرماتھے ،  حضرت عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ اچانک ایک اجنبی حاضر ہوا ،  اس کے کپڑے نہایت سفید اور بال بے حد سیاہ تھے ،  لباس سے خوشبو کی مہک آرہی تھی ،  اجنبی ہونے کے باوجود اس پر سفر کے کچھ آثار نہ تھے ،  ہم میں سے کوئی اس نووارد کو جانتا نہیں تھا،  وہ آپ  علیہ سلام  کے قریب نہایت ادب سے دو زانو ہوکر بیٹھ گیا اور گھٹنے حضورعلیہ سلام کے گھٹنوں سے ملا دئیے ،اس شخص نے دریافت کیا …  اے  محمدعلیہ سلام  !  اسلام کیا ہے ؟

حضور علیہ سلام نے فرمایا : 

  اسلام یہ ہے کہ تم شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی اِلہٰ نہیں اور محمدعلیہ سلام  اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کر و ،  زکوٰۃ ادا کرو،  رمضان کے روزے رکھو اور اگر حج بیت اللہ کی استطاعت ہے تو حج کرو،   نووارد نے جواب سن کر کہا ،   آپ علیہ سلام  نے سچ کہا ،اس نے پھر پوچھا …   مجھے بتلائیے کہ ایمان کیا ہے ؟

فرمایا :

ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو ‘ اس کے فرشتوں کو ‘ اس کی کتاب کو ‘ اس کے رسولوں اور یوم آخر یعنی قیامت کو حق جانو اور حق مانو اور ہر خیر و شر کی تقدیر کو بھی حق جانو اور حق مانو ،  یہ سن کر بھی اس نے کہا کہ آپ علیہ سلام  نے سچ کہا،  

حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ یہ شخص سوال بھی کرتا ہے اور خود ہی اس کی تصدیق کرتا ہے،   پھر اس نے پوچھا …  احسان کس چیز کا نام ہے ؟

فرمایا : احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت ایسی دل لگاکر کرو کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو اگر یہ نہ ہوسکے تو یہ خیال رہے کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ،اس نے سوال کیا …  قیامت کب آئے گی  ؟فرمایا :  جس سے یہ بات پوچھی جا رہی ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ، عرض کیا:   تو مجھے اس کی کچھ نشانیاں ہی بتلائیے ، فرمایا :   میں تمہیں اس کی علامتیں بتائے دیتا ہوں ،

(۱)  جب لونڈی اپنے آقا اور مالک کو جنے گی

(۲)  تم دیکھو گے کہ جن کے پاؤں میں جوتا اور تن پر کپڑا نہیں جو تہی دست اور بکریاں چرانے والے ہیں وہ بڑی بڑی عمارتیں بنائیں گے اور ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں گے، 

صحیح بخاری کے بموجب قیامت غیب کی ان پانچ باتوں میں سے ایک ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ،  پھر آنحضرت علیہ سلام  نے سورۂ لقمان کی آیت نمبر ۳۴ تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے :
"  اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی مینہ برساتا ہے اور وہی (حاملہ کے ) پیٹ کی چیز وں جانتا ہے (نر ہے یا مادہ ) اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کس سر زمین میں اُسے موت آئے گی،  بے شک اللہ ہی جاننے والا ہے،  خبر دار ہے "
 (سورۂ لقمان :  ۳۴ )

پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا گیا ،  رسول اللہ علیہ سلام  نے فرمایا!   اس کو پھر لے آؤ ،  لوگوں نے جاکر دیکھا تو وہاں کسی کو نہ پایا ، 

حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ اس واقعہ کو کچھ عرصہ بیت گیا،  ایک دن حضور علیہ سلام  نے فرمایا: اے  عمر…  کیا تمہیں پتہ ہے کہ وہ شخص جو سوالات کر رہا تھا کون تھا ؟

حضرت عمرؓ نے عرض کیا : اللہ اور اُس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ،  فرمایا:وہ جبرئیل ؑ تھے تمہاری مجلس میں اس لئے آئے تھے کہ تمہیں تمہارا دین سکھائیں ،یہ بہت مشہور حدیث ہے جو عام طور پر حدیث جبرئیل ؑ کے نام سے مشہور  ہے ،  اسے " اُم الاحادیث "  بھی کہا جاتا ہے ،  اسے حیات طیبہ کی ۲۳ سالہ جد وجہد کا نچوڑ کہا جاسکتا ہے ،  یہ واقعہ تکمیل دین کی آیت کے نزول کے بعد اس وقت ہوا جبکہ اس دنیا میں آپ علیہ سلام  کی عمر مبارک میں صرف تین دن باقی رہ گئے تھے، 

حضور علیہ سلام نے فرمایا کہ میں جبرئیل کو ہر شکل میں پہچان لیتا ہوں لیکن اس دفعہ نہ پہچان سکا کیونکہ وہ ایک بدو سائل کے بھیس میں آئے تھے،  امین وحی نہیں بلکہ ملائکہ کے نمائندہ بن کر آئے تھے،  میں نے انھیں افق اور سدرۃالمنتہیٰ پر ہیت اصلی میں بھی دیکھا،  یہ موقع عینی مخلوق کی نمائندگی کا تھا لہٰذا پردہ بعد میں اٹھا ،  دین مکمل ہوگیا ،  اب قیامت تک اس میں نہ کوئی کمی ہوسکتی ہے اور نہ بیشی ،  زمین وآسمان کی مخلوق نے گواہی دی.
(سیرت احمد مجتبیٰ)
خود الله کے رسول صلعم اور اور تمام انبیا علیہ سلام کی زندگیوں کا مقصود دین کو قائم کرنے رہا اسی مقصود کے لیے ابراہیم علیہ سلام کو آگ میں ڈالا گیا ،موسیٰ علیہ سلام کو ملک بدر کیا گیا یوسف علیہ سلام قید میں ڈالے گۓ اور الله کے رسول صلعم نے طائف کی بستی میں اپنا خون بہایا !
صحابہ رض کی جماعت قدسی کو کس مقصد کے لیے تیار کیا گیا تھا ،

كُنتُمْ خَيرَْ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ لَوْ ءَامَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكاَنَ خَيرًْا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَ أَكْثرَُهُمُ الْفَاسِقُون *سوره آل عمران آيت 110
تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظر عام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکہتے ہو اگر اہل کتاب بہی ایمان لے آتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا لیکن ان میں صرف چند مومنین ہیں اور اکثريت فاسق ہے۔

ذرا غور کیجئے دین کیا ہے دین کا تقاضا کیا ہے اور دین کا مقصود کیا انبیا کیوں معبوث ہے الله کے رسول صلعم کا پیغام کیا تھا اور اصحاب رض رسول کی محنت کیا تھی !

جشن کیا ہے کیوں منایا جاتا ہے خوشی و غمی کے معیارات کیا ہیں ،

یہودی کیلنڈر کے مہینے کس لیو کی 25 تاریخ کو یہودیوں نے یروشلم کو آزاد کروا لیا تھا یعنی 165 قبل مسیح میں، اس آزادی کی خوشی میں یہودیوں کا آٹھ روزہ جشن شروع ہے جسے عبرانی زبان میں چنوکاہ کہا جاتا ہے۔ یہ جشن (فیسٹیول آف لائٹ) نومبر کے آخر یا دسمبر کے آخر میں شروع ہوتا ہے، جشن کا آغاز ہفتہ کی شب مخصوص قسم کے موم بتی اسٹینڈ پر ایک موم بتی روشن کر کے کیا جاتا ہے پھر آٹھ روز میں آٹھوں موم بتیاں جلائی جاتی ہیں موم بتیاں جلانے کا مخصوص طریقہ ہے، موم بتی اسٹینڈ بھی مخصوص بناوٹ کا ہے اس سال جشن چنوکاہ 8 دسمبر 2012ء بروز ہفتہ کی شب سے شروع ہو چکا ہے ان دنوں میں یہودی کثرت سے عبادت کرتے ہیں توریت کی تلاوت کرتے ہیں مخصوص حمد و ثنا کرتے ہیں موم بتی اسٹینڈ کو نمایاں کھڑکی پر رکھ دیا جاتا ہے یہ ایک طرح کا چراغاں ہوتا ہے۔ یہودیوں کی عبادت گاہ کو سنی گونگ کہا جاتا ہے عبادت کے وقت شانوں پر مخصوص قسم کا کپڑا ڈالا جاتا ہے، مرد سر پر مخصوص ٹوپی پہنتے ہیں توریت زور زور سے تلاوت کی جاتی ہے، عبادت گاہ میں یہودی پاک صاف ہو کر نہا دھو کر صاف لباس پہن کر داخل ہوتے ہیں، عبادت کے بعد دوپہر کا کھانا سنی گونگ میں ہی مل بیٹھ کر کھایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاقات بڑھتی ہے، یہودیوں کا مقدس دن ثبات کہلاتا ہے اسی دن صبح سے ہی یہودی سنی گونگ میں جمع ہو جاتے ہیں۔ کینیڈا کے شہر ٹورانٹو کے وسط میں بارتھرسٹ نامی علاقہ میں یہودی آباد ہیں یہ مل جل کر رہنے کے قائل ہیں، طرز رہائش سادہ اور خوراک کے مقابلے میں ذبیحہ کا ہونا لازمی ہے، دودھ دہی کے معاملے میں مذہبی قیود ہیں، ذبیحہ کو یہودی کوشر کہتے ہیں ایک دوسرے سے ملتے وقت شلام کہتے ہیں۔ عبادت کے وقت اللہ کے حضور سنی گونگ میں آہ و گریہ جاری رہتا ہے، لوگوں پر رقت طاری رہتی ہے، سنی گونگ میں بچوں سمیت خاندان کا ہر فرد حاضر ہوتا ہے، سنی گونگ کی باقاعدہ ممبرشپ ہوتی ہے تاکہ ایک دوسرے کے بارے میں جملہ معلومات حاصل رہیں، 

کرسمس(Christmas) دو الفاظ Christ اور Massکا مرکب ہے۔ Christمسیح کو کہتے ہیں اور Mass اجتماع، اکٹھا ہونا۔ مراد ہے، مسیح کے لیے اکٹھا ہونا، مسیحی اجتماع یامیلاد مسیؑح۔

یہ لفظ تقریباً چوتھی صدی کے قریب قریب پایا گیا، اس سے پہلے اس لفظ کا استعمال کہیں نہیں ملتا۔

دنیا کے مختلف خطوں میں کرسمس کو مختلف ناموں سے یاد کیا اور منایا جاتا ہے۔ اسے یول ڈے نیٹوئی اور نوائل جیسے ناموں سے بھی منایا جاتا ہے۔ (نوائے وقت 27دسمبر 2005ئ)

’’بڑا دن‘‘ بھی کرسمس کا مروجہ نام ہے۔ یہ دن ولادت مسیؑح کے سلسلہ میں منایا جاتا ہے۔ چونکہ مسیحیوں کے لیے یہ ایک اہم اور مقدس دن ہے، اس لیے اسے بڑا دن کہا جاتا ہے۔ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسائی اسے 25 دسمبر کو، مشرقی آرتھوڈوکس کلیسائی 6جنوری کو اور ارمینیا کلیسائی 19جنوری کو مناتے ہیں۔ کرسمس کا بطور تہوار 25 دسمبر کو منانے کا ذکر پہلی مرتبہ 325ء کو شاہِ قسطنطین کے عہد میں ملتا ہے۔ یہ بات صحیح طور پر معلوم نہیں کہ اولین کلیسائیں بڑا دن مناتی تھیں یانہیں۔

یادرہے کہ مسیحؑ کی صحیح تاریخ پیدائش کا کسی کو علم نہیں۔ تیسری صدی میں اسکندریہ کے کلیمنٹ نے رائے دی تھی کہ اسے 20مئی کو منایا جائے۔ لیکن 25دسمبر کو پہلے پہل رومہ میں اس لئے مقرر کیا گیا تاکہ اس وقت کے ایک غیر مسیحی تہوار، جشن زحل کو (Saturnalia) کو (جو رومیوں کا ایک بڑا تہوار تھا، اور جس میں رنگ رلیاں منائی جاتی تھیں) جو راس الجدی کے موقع پر ہوتا تھا پسِ پشت ڈال کر اُس کی جگہ مسیحؑ کی سالگرہ منائی جائے۔ (قاموس الکتاب: ص147)


٤ صدیوں تک 25دسمبر تاریخ ولادت مسیؑح نہیں سمجھی جاتی تھی۔ 530ء میں سیتھیا کا ایک ڈایونیس اکسیگز نامی راہب جو منجّم(ستاروں کا علم رکھنے والا) بھی تھا، تاریخ ولادت مسیؑح کی تحقیق اور تعین کے لیے مقرر ہوا۔ سو اُس نے حضرت مسیؑح کی ولادت 25دسمبر مقرر کی کیونکہ مسیؑح سے پانچ صدی قبل 25دسمبر مقدس تاریخ تھی۔ بہت سے سورج دیوتا اُسی تاریخ پر یا اُس سے ایک دو دن بعد پیدا ہونا تسلیم کیے جا چکے تھے۔ چنانچہ راہب نے آفتاب پرست اقوام میں عیسائیت کو مقبول بنانے کے لیے حضرت عیسیٰ ؑکی تاریخ ولادت 25دسمبر مقرر کر دی۔

قرآن مجید کی سورت مریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت مریم ؑکو دردزہ ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت کی کہ کھجوروں کے تنے کو ہلائے، تاکہ ان پر تازہ پکی کھجوریں گریں اور وہ اس کو کھائیں اور چشمہ کاپانی پی کر طاقت حاصل کریں۔ اب فلسطین میں موسم گرما کے وسط یعنی جولائی، اگست میں ہی کھجوریں ہوتی ہیں۔ اس سے بھی یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت مسیؑح کی ولادت جولائی یا اگست کے کسی دن میں ہوئی تھی اور 25دسمبر کی تاریخ غلط ہے۔ (’’مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ‘‘: ص435)

ہولی کا تہوار ہندووں کے ہاں ایک خاص مقام رکھتا ہے کیونکہ اس دن لوگ بغیر کسی امتیاز کے ایک دوسرے پر رنگ ڈالتے ہیں اور گلال ڈال کر خوشی مناتے ہیں۔ رنگوں سے بھر پور یہ تہوار قدیم زمانہ سے منایا جا رہا ہے۔ یہ تہوار ہولی، جو پھاگن کی پورنماشی کو منایا جاتا ہے، بھگت پرہلاد سے جڑی ایک کتھا ہے 
اس کو دھارمک طور پر اسلئے منایا جاتا ہے کہ ست یگ میں راجہ پرتھونام کا راجہ تھا اور اس کے راج میں ایک راکششنی نے لوگوں کوتنگ کر کے لوگوں کو خوفزدہ کر رکھا تھا تو اس راجہ نے اپنی رعایا کو اس مصیبت سے چھڑا نے کے لئے اپنی فوج بھیجی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ یہ راکششنی لوگوں کے بچوں تک اٹھا کر لے جاتی تھی۔ اس کے بعد راجہ کل گور و وششٹ سے اس کو حل کرنے کے لئے صلاح لی تو انہوں نے اس کو ڈرا کر بھگانے کے لئے صلاح دی تو اس پھاگن ماہ میں آگ جلا کر سب بچوں کو اکٹھا کر کے شور مچایا جس کی وجہ سے راکششنی ڈر کر بھاگ گئی اس وجہ سے اس خوشی میں یہ ہولی کا تہوار منایا ۔
اس کے علاوہ ایک اور کتھا ہے جو راجہ ہر نا کش کے دھرم پر ظلم اور اس کے معصوم بچے پر ہلاد کی بھگتی بھاونا سے جڑی ہوئی ہے ۔راجہ ہرنیہ کشیپ اپنے دور اقتدار میں اپنے آپ کو ہی بھگوان مانتا تھا اور کسی کو بھی بھگوان کا نام نہیں لینے دیتا تھا لیکن اس کا اپنا بیٹا بھگوان ہری کا بھکت تھا اس نے اپنے بیٹے ہی کو مارنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوا مگر راجہ کی بہن ہولیکا کو اگنی میں جلنے کا وردان ملا ہواتھا اس نے اپنی بہن کی گود میں بیٹھا کر پرہلاد کو جلانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوا تو لوگوں نے اس خوشی میں یہ تہوار منایا!

مسلمانوں میں بھی اسی طرح کے کچھ جشن اور تہواروں نے جنم لیا جیسے !
مشہور ایرانی  تاریخ دان یعقوبی رقم فرماتے ہیں کہ:

" ان کے سال کا پہلا دن  " نوروز  " کے نام سے ہے ، جس میں آب نیسان بھی برستا ہے یہ اس وقت ہے جب سورج برج حمل میں داخل ہوتا ہے اور یہ دن ایرانیوں کے لئے بڑی عید ہے۔ البتہ اس بات کو ایرانیوں کا حسن سلیقہ سمجھنا چاہیے کہ بہار کو سال کےآغاز کے لئے انتخاب کیا جس میں نباتات دوبارہ تروتازہ ہوتے ہیں اور ہریالی کا آغا ہوتا ہے، جس طرح کچھ ممالک عیسوی سال کو جشن کے طور پر مناتے ہیں۔ "

 جزیرہ عرب کے لوگ بھی اس تہوار کو مناتے تھے ۔  ایران میں پہلوی اور مانوی دور کی تحریروں میں بھی جشن نوروز کے متعلق ذکر کیا گیا ہے ۔ شیراز میں واقع تخت جمشید پر بھی جشن نوروز کا اہتمام کیا جاتا تھا ۔ تخت جمشید کو ہخامنشی دور میں ایک مقدس مقام کا درجہ  حاصل تھا ۔ ھخامنشی دور کے بادشاہ جشن نوروز کے موقع پر مختلف اقوام کے نمائندوں از جملہ مادی، ایلامی ،بابلی، خوزی، آشوری، ھندی، تونسی، آفریقائی  کو جشن میں مدعو کرتے تھے یہ سب اپنے اپنے قومی لباس میں تشریف لاتے اور جشن کے موقع پر بادشاہ کو تحائف پیش کرتے تھے ۔ اشکانی اور ساسانی دور میں بھی تاریخی روایات کے مطابق جشن کا اہتمام کیا جاتا تھا ۔

ایرانی قوم  عید نوروز کو سال کے سب سے بڑے تہوار کے طور پر مناتی ہے ۔ نیا سال شروع ہونے سے پہلے ہی لوگ اپنے گھروں کی صفائی شروع کر دیتے ہیں ۔ اس کو ""خانہ تکونی "" کا نام دیا جاتا ہے ۔ اس موقع پر لوگ ہر چیز نئی خریدنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بازاروں میں گہماں گہمی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ ایران میں ایک دلچسپ رسم یہ ہے کہ وہ سال کے آغاز پر اپنے گھروں میں دسترخوان بچھاتے ہیں جن پر سات مختلف اور مخصوص اشیاء رکھی جاتی ہیں جن کا نام جروف تہجی کے مطابق "س " سے شروع ہوتا ہے ۔ اس رسم کو "ھفت سین " کا نام دیا جاتا ہے ۔
جناب صفدر ھمدانی صاحب اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ

" اہل تشیع کے ہاں روایت ہے کہ اسی نوروز کے دن بارہویں امام حضرت مہدی ابن العسکری دنیا میں ظہور فرمائیں گے اور اسی طرح اسلامی تاریخ میں تقویم کے اعتبار سے نوروز ہی کا دن ہے جب پہلی بار دنیا میں سورج طلوع ہوا،درختوں پر شگوفے پھوٹے،حضرت نوح کی کشتی کوہ جودی ہر اتری اور طوفان نوح ختم ہوا، نبی آخرالزمان پر نزول وحی کا آغاز ہوا،حضرت ابراہیم نے بتوں کو توڑا اور مقام غدیر خم پر ولایت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کا اعلان ہوا۔ "
اسلامی جمہوریہ ایران سمیت آج ساری دنیا میں عید غدیر کی مناسبت سے خوشیاں منائي جارہی ہیں۔ حجۃ الوداع کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم خدا سے حضرت علی علیہ السلام کو اپناخلیفہ اور جانشین معین فرمایا تھا۔ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے خلیفۂ رسول معین ہونے کی خوشی میں آج سارے ایران میں چراغان کیا گيا ہے۔ ہرگلی کوچے میں چراغانی دیکھی جاسکتی ہے۔ سرکاری عمارتوں کےعلاوہ لوگوں نے اپنے گھروں، دوکانوں اور کمپنیوں کی عمارتوں پر چراغانی کی ہے۔مشہد مقدس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند حضرت امام رضا علیہ السلام اور قم مقدسہ میں آپ کی بہن حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے روضوں کونہایت ہی خوبصورتی سے سجایا گیا ہے۔ عراق میں بھی کربلائے معلی، نجف اشرف، سامرا اور کاظمین میں اھل بیت عصمت و طہارت کی بارگاہوں پر بے مثال چراغانی کی گئي ہے۔ ان روضوں پر اس وقت لاکھوں زائرین کا اجتماع ہے۔ ایران میں علماء اور مراجع کرام کے گھروں میں محافل قصیدہ خوانی اور جشن کا سلسلہ جاری ہے۔ ایران میں ہر چھوٹے بڑے شہر کی مسجدوں اور امام باگاہوں میں جشن قصیدہ خوانی کا سلسلہ جاری ہے جو گذشتہ روز ہی سے شروع ہوچکا تھا۔ ساری دنیا میں اھل ولایت عید غدیر کی خوشی میں ا یک دوسرے کو مٹھائياں کھلارہے ہیں اور مبارک باد پیش کرکے خدا کا شکر ادا کررہے ہیں کہ خدا نے انہیں ولایت امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی نعمت سے مالامال کیا ہے۔ عراق سے موصولہ رپورٹ کے مطابق آج نجف اشرف میں لاکھوں زائرین بارگاہ امیر المومنین علیہ السلام میں حاضری دے کر آپ کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کی مبارک باد پیش کررہے ہیں۔لبنان اور شام سے موصولہ اطلاعات کے اھل بیت نبوت و عصمت و امامت کے عقیدت مندوں نے بڑے عقیدت و احترام سے عید غدیر منائي۔بحرین اور سعودی عرب میں اھل ولایت نے حکومت کی پابندیوں کے تحت اپنے گھروں میں عید غدیر کی مناسبت سے جشن منائے۔
ان تمام مذاہب اور مسالک میں خوشی و غمی کی بنیاد شخصیات و واقعات سے منسلک ہے جو ماضی قریب و بعید میں پیش اے جنپر انکے مذہب و فرقے کی بنیاد ہے !
قرآن مجید میں ذات باری تعالیٰ کے متعلق”رب العالمین“ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی ذات اقدس کے لیے ”رحمة للعالمین“ قرآن مجید کے لیے ”ذکر للعالمین“ اور بیت الله شریف کے لیے ”ھدًی للعالمین“ فرمایا گیا ہے ، اس سے جہاں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کی آفاقیت وعالم گیریت ثابت ہوتی ہے، وہاں آپ صلی الله علیہ وسلم کے وصف ختم نبوت کا اختصاص بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات اقدس کے لیے ثابت ہوتا ہے، اس لیے کہ پہلے تمام انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے علاقے، مخصوص قوم او رمخصوص وقت کے لیے تشریف لائے، جب آپ صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے تو حق تعالیٰ نے کل کائنات کو آپ کی نبوت ورسالت کے لیے ایک اکائی  بنا دیا۔

جس طرح کل کائنات کے لیے الله تعالیٰ ”رب“ ہیں، اسی طرح کل کائنات کے لیے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نبی ہیں۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے اپنے لیے جن چھ خصوصیات کا ذکر فرمایا، ان میں سے ایک یہ بھی ہے:﴿ارسلت الی الخلق کافة وختم بی النبیون﴾․

”میں تمام مخلوق کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔“ (مشکوٰة ص512 ،باب فضائل سید المرسلین، مسلم ج1، ص199 ،کتاب المساجد)

سورہٴ احزاب کی آیت40 میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا واضح اعلان ہے ، اس کے علاوہ چند دوسری آیات ملاحظہ ہوں:

*﴿ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ﴾․ (توبہ:22 ،صف9)

” وہی ذات ہے کہ جس نے اپنے رسول ( صلی الله علیہ وسلم )کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے، تاکہ تمام ادیان پر بلند اور غالب کرے۔“
عن ابی موسی الاشعری قال: قال رسول اﷲ : ”امتی ھذہ امہ مرحومہ؛ لیس علیھا عذاب فی الاخرہ، عذابھا فی الدنیا: الفتن والزلازل والقتل (رواہ ابوداؤد، کتاب الفتن والملاحم، باب: ما یرجیٰ فی القتل حدیث٣٧٣٠)
ابوموسی الاشعری سے روایت ہے، کہا: فرمایا رسول اللہ نے: ”میری یہ امت ایک ایسی امت ہے جسے (اللہ کی) رحمت سے سرفراز کیا گیا ہے۔ اس پر آخرت میں (بطور مجموعی) (١) کوئی عذاب نہیں۔ اس کا (غالب) (٢) عذاب (یہیں) دنیا میں ہے: فتنے، زلزلے اور خونریزی“۔
سنن ابی داؤد کی اس حدیث کو محدث البانی صحیح کہتے ہیں۔ (٣) مسند احمدکی ایک روایت کے الفاظ ہیں: انما عذابھم فی الدنیا: القتل والبلابل والزلازل۔ ”ان کا عذاب (بطور قوم) جو ہے سو اسی دنیا میں ہے: مار دھاڑ، آفات و بحرانات اور بھونچال“۔ مسند احمد ہی کی ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں: لیس علیھا فی الاخرہعذاب الا عذابھا فی الدنیا القتل والبلاءوالزلازل ”اس (امت) پر (بطور مجموعی) آخرت میں کوئی عذاب نہیں سوائے اسی عذاب کے جو دنیا میں ہے (یعنی) قتل وغارت، بلائیں و آزمائشیں اور زلزلے“۔

اب ذرا غور کیجئے "قتل وغارت، بلائیں و آزمائشیں اور زلزلے“۔ کیا یہی مقام تھا اس امّت کا یہ پھر کچھ اور کیا یہی انجام تھا اس امّت کا یہ پھر کوئی اور ،
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ وَعَدَاللّٰہُ الَّذینَ آمَنُوا مِنْکُم وَعمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ۔ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَ لَیُبَدِّّلَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْناً۔یَعْبُدُونَنِی لاَ یُشْرِکُونَ بِی شَیئًا۔وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُوْلٓئِکَ ہُمُ الفٰسِقُوْنَ ۔ ( سورۃ النور:۵۶ )ترجمہ : اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں سے وعدہ کیاہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا۔ جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا تھا اور جو دین اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے وہ ان کے لئے اسے مضبوطی سے قائم کر دے گا اور ان کے خوف کی حالت کے بعد وہ ان کے لئے امن کی حالت تبدیل کر دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے (اور) کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے اور جو لوگ اس کے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانوں میں سے قرار دئے جائیں گے۔
  ذرا غور کیجئے کیا ختم نبوت صلعم کا مقصود حاصل ہو گیا کیا خلافت عرضی مسلمانوں کے پاس ہے کیا الله کے رسول صلعم کا دین غالب ہو گیا یہ نہیں !
تو پھر جشن کس بات کا خوشی کس چیز کی  کیا ہم حوض کوثر پر الله کے رسول صل الله و علیہ وسلم کو یہی جواب دینے والے ہیں کفر کے اندھیرے پھیل رہے ہیں اور ہم چراغاں کر رہے ہیں نبی صلعم کی شان میں گستاخیاں ہو رہی ہیں اور ہم جشن منا رہے ہیں مسلمان دنیا میں مغلوب ہیں اور ہم حلوے بانٹ رہے تھے ،
افسوس صد افسوس کیا مقصود تھا اور کیا ہو گیا !
مکی زندگی کے دورِ ابتلاءوآزمائش میں آپ صلى الله عليه وسلم کا گذر عمار بن یاسر ؓ اور ان کے گھر والوں کے پاس سے ہوا ، وہ ابوجہل کی اذیتوں کا نشانہ بنے ہوئے تھے ۔ آنحضرت صلى الله عليه وسلم  نے ان کو اس المناک حالت میں دیکھا توان کی دل جوئی اور ہمت افزائی کرتے ہوئے فرمایا : ابشروا آل یاسر فان موعدکم الجنة (طبرانی ، حاکم )

”اے یاسر کے خاندان والو ! تمہیں خوشخبری ہو ،تمہارے لیے جنت کا وعدہ ہے “ ۔
کیا ہم نے بھی خود کو جنّت کا حقدار بنا لیا ہے ،

مسلموں کا کفر پر غلبہ میلاد سے نہیں دعوت و جہاد سے ہوتا ہے اور اس طریق پر ہی اصحاب رض کے دور میں ہوا تاریخ اسلام پڑھ جائیے تاکہ معلوم ہو .....
ٹھنڈے بستر سے نکل کر سبز جھنڈیاں لگا دینے سے حب نبوی علیہ سلام کا حق ادا نہیں ہوتا نبی تو پیٹ پر پتھر باندھیں گھاٹیوں میں قید ہوں دندان مبارک شہید ہوں گھر بار چھوڑنا پڑے سنگباری سے بدن خون ہو جاۓ اور آپ جھنڈیاں لگا کر دین غالب کر دیں افسوس صد افسوس مزید کیا کہا جاۓ..

وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

حسیب احمد حسیب