ہفتہ، 27 اکتوبر، 2012

کڑوا سچ جناب حامد میر کی خدمت میں !


کڑوا سچ جناب حامد میر کی خدمت میں !

کڑوا سچ جناب حامد میر کی خدمت میں!

قلم و قرطاس اور زبان و بیان دو دھاری تلواریں ہیں، اگر ان کے صحیح استعمال سے دین و شریعت کی ترجمانی اور نجاتِ آخرت کا سامان کیا جاسکتا ہے، تو باطل، اہل باطل کی ترجمانی اور حقائق مسخ کرکے اپنی دنیا وآخرت برباد بھی کی جاسکتی ہے۔ جب تک مسلمانوں کے دلوں میں خوفِ خدا، خشیت ِ الٰہی اور فکر ِ آخرت تھی، ناممکن تھا کہ ان کی زبان و بیان اور قلم وقرطاس سے خلافِ حقیقت کوئی بات صادر ہوتی، لیکن جب سے ان کے دلوں سے فکرآخرت اور خوف خدا رخصت ہوا ہے، وہ بلاتکان ہر قسم کا جھوٹ، سچ بولنے اور لکھنے لگے ہیں،اور انہیں یہ احساس تک نہیں رہا کہ کل قیامت کے دن اس کا حساب دینا ہوگا؟یا ہمیں اپنی کسی تحریر و کلام کا جواب بھی دینا ہوگا؟ حالانکہ قرآن کریم میں ہے: ”مایلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید“ (ق:۱)نہ․․․یں بولتا کوئی بات، مگر ہوتا ہے اس کے پاس ایک نگہبان تیار․․․ یعنی فرشتے خدا کے حکم سے ہر وقت اس کی تاک میں رہتے ہیں ،جو لفظ اس کے منہ سے نکلے، وہ لکھ لیتے ہیں۔ اسی طرح جو بات بھی قلم سے صادر ہو، اس کو بھی محفوظ کرلیا جاتا ہے۔
ایسالگتا ہے کہ کافر تو کافرشایداب مسلمانوں کو بھی اس کا یقین نہیں رہا کہ ہمیں اپنے اچھے بُرے کا جواب دینا ہوگا، یا ہم نے خدانخواستہ کسی کی طرف غلط بات منسوب کی تو عنداللہ اس کو ثابت کرنا ہوگا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ زندہ تو زندہ اب مردے بھی ان کے ظلم و ستم اور کذب و افترأ سے محفوظ نہیں۔ کچھ اسی قسم کا معاملہ روزنامہ جنگ کے ایک کالم نگار جناب حامد ”میر“ صاحب کا ہے۔ نہیں معلوم کہ وہ کون سے ”میروں“ سے ہیں؟ بہرحال اللہ تعالیٰ نے ان کو قلم و قرطاس کی ”نعمت“ اور میڈیا سے وابستگی کی ”سعادت“ سے نوازا ہے، اور ان کا ”بے باک“ قلم منہ زور گھوڑے کی طرح آئے دن کسی نہ کسی کی پگڑی اچھالتارہتا ہے۔ تہمت طرازی، الزام تراشی، غلط بیانی اور حقائق کو مسخ کرناتو ”میر“ صاحب کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، چنانچہ آج سے کوئی ساڑھے پانچ سال قبل بھی روزنامہ جنگ کراچی ۲۵/ اگست ۲۰۰۳ء کی اشاعت میں موصوف نے ”ملا پاور“ کے نام سے ایک تاریخی جھوٹ تراش کر یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ ۱۹۷۴ء کی اینٹی قادیانی تحریک اور مسئلہ ختم نبوت میں علماء اورکارکنانِ ختم نبوت کا کوئی کردار نہیں تھا اور یہ مسئلہ کسی تحریک کے بغیر محض پی پی پی راہنما ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتی دل چسپی سے حل ہوا تھا، چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ”․․․ذوالفقار علی بھٹو نے ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ کے ذریعہ قانون منظور کرواکر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوایا، ۱۹۷۴ء کی اسمبلی میں بھٹو ملاؤں کے قطعاً محتاج نہ تھے اور نہ ہی اس وقت سڑکوں پر کوئی تحریک چل رہی تھی، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت کی مرضی سے ہوا․․․“
کیا کوئی باشعور مسلمان باور کرسکتا ہے کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ۱۹۷۴ء کی آئینی ترمیم بغیر کسی تحریکی دباؤ کے از خود فرمادی تھی؟ ہمارے خیال میں اتنا بڑا تاریخی جھوٹ ”میر“ صاحب کے علاوہ کسی کو زیب نہیں دیتا، ورنہ کون نہیں جانتا کہ ربوہ اسٹیشن پر قادیانی جارحیت کے خلاف اٹھنے والی تحریک نے جب مسلمانانِ پاکستان کو بیدار کیا تو اسمبلی کے اندر مولانا مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا شاہ احمد نورانی ، پروفیسر غفور احمد وغیرہ حضرات نے اور اسمبلی سے باہر حضرت مولانا سیّد محمد یوسف بنوری اور دوسرے اکابر نے مسلمانوں کی قیادت کا فریضہ سر انجام دیا، تو حکومت پاکستان اور جناب ذوالفقار علی بھٹو عوامی دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے؟ کیا اس تحریک میں براہ راست شرکت کرنے والے، شہدأ کے ورثأ اور ہزاروں فرزندانِ توحید اس کے گواہ نہیں کہ یہ تحریک مئی ۱۹۷۴ء سے ستمبر ۱۹۷۴ء تک مسلسل پانچ ماہ تک برپا رہی اور اسی کی برکت سے یہ مسئلہ حل ہواتھا؟ مگر موصوف اس کے برعکس فرماتے ہیں کہ : ”نہ ہی اس وقت سڑکوں پر کوئی تحریک چل رہی تھی․․․․۔“
”میر“ صاحب اگر ۱۹۷۴ء کی آئینی ترمیم بھٹو صاحب کے دستخطوں کی وجہ سے ان کے کھاتے میں ڈالی جاسکتی ہے اور مسلسل پانچ ماہ تک پوری پاکستانی عوام کی جدوجہد کی نفی کی جاسکتی ہے، تو کیا آپ کسی کو یہ کہنے کی بھی اجازت دیں گے؟ کہ معزول ججوں کی بحالی بھی زرداری صاحب کی مرہون منت ہے اور وکلاء کا اس کے پیچھے کوئی کردار نہیں، کیونکہ زرداری صاحب معزول ججوں کی بحالی میں وکلاء کے قطعاً محتاج نہیں تھے، اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو تحریک تحفظ ختم نبوت میں علماء کی مساعی کا انکار کیوں کیا جاسکتا ہے؟
اسی طرح انہوں نے اسی کالم میں یہ گوہر افشانی بھی فرمائی تھی کہ:
”جہاد کشمیر کا ۱۹۴۷ء میں آغاز ہوا تو ملاؤں کی طرف سے اس جہاد کو کفر قرار دیا گیا“
ایسا لگتا ہے کہ موصوف کالم لکھتے وقت ہوش میں نہیں تھے یا ان پر نیند کا غلبہ تھا، ورنہ کون نہیں جانتا کہ :
”جب وزیر اعظم پاکستان نوابزادہ لیاقت علی خان مرحوم نے کشمیر میں اعلانِ جنگ کردیا، جس پر پوری قوم ان کی ہمنوا بن گئی، اس جنگ میں مجلس احرار اسلام سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئی اور اس نے حکومت پاکستان کے موقف کی بھرپور اور دو ٹوک حمایت کا اعلان کردیا، مجلس احرارِ اسلام نے اس موقع پر دفاعِ پاکستان کے عنوان پر جلسوں کا اعلان کرکے رائے عامہ ہموار کرنے اور قوم میں جذبہ جہاد پیدا کرنے کی مہم شروع کردی، پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں زبردست جلسے کئے گئے، عوام اور فوج دونوں کا لہو گرمایا گیا، انہیں جہاد کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کیا گیا، مجلس احرار اسلام کے تمام راہنما اس جدوجہد میں شریک ہوگئے۔“ (تحریک کشمیر سے تحریک ختم نبوت تک ،از چوہدری غلام نبی، ص:۱۲۵)
ان ہر دو اقتباسات سے موصوف کی ”راست“ بیانی اور تہمت تراشی کا کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
بہرحال ہم نے اس وقت بھی موصوف کی خدمت میں مفصل گزارشات عرض کی تھیں، عین ممکن ہے کہ ان کی نظر سے نہ گزری ہوں، افسوس کہ حال ہی میں” میر“ صاحب کا ”صداقت انگیز“ اور ”فرض شناس“ قلم ایک بار پھر حرکت میں آیا ہے، چنانچہ روزنامہ جنگ کراچی ۲۶/ مارچ ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں موصوف نے اپنے کالم ”بلاول کا خیال کیجئے“ میں ایک بار پھر اپنی سابقہ ”سچ گوئی“ کا اعادہ کرتے ہوئے چند نئے اور تازہ شگوفے چھوڑے ہیں۔
یقینا”میر“ صاحب! اپنی عادت سے مجبور ہوں گے، مگر ہم ان سے اتنا عرض کرناچاہیں گے کہ آپ ”یہ کرم فرمائی“ صرف زندوں کی حد تک روا رکھیں تو زیادہ مناسب ہوگا اور مرحومین کواس سے مستثنی قرار دے دیں تو آپ کے لئے بہتر ہوگا۔
”میر“ صاحب نے اپنے تازہ کالم میں مولانا فضل الرحمن کو فہمائش کرتے ہوئے لکھا ہے:
”وکلاء کے لئے معزول ججوں کی بحالی کے لئے تحریک اتنی ہی اہم تھی جتنی اہم تحریک پاکستان تھی، تحریک پاکستان میں بھی کچھ مولانا صاحبان نے علامہ اقبال اور قائد اعظم کے خلاف طرح طرح کے فتوے صادر کئے، نوبت یہاں تک آئی کہ علامہ اقبال کو جمعیت علماء ہند کے رہنما مولانا حسین احمد مدنی کے خلاف اشعار کہنا پڑگئے...۔“
موصوف نے علامہ اقبال مرحوم کے متنازعہ اشعار کا سبب، ان کے خلاف حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی کے فتویٰ کو قرار دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ” میر“ صاحب علماء دشمنی کی ”برکت“ سے عقل و خرد کی سطح سے بہت ”اونچے“ جاچکے ہیں، ورنہ کون نہیں جانتا کہ حضرت مدنی نے علامہ اقبال کے خلاف نہ ایساکوئی فتویٰ دیا تھا اور نہ ہی علامہ اقبال نے اپنے کسی ذاتی انتقام میں وہ متنازعہ اشعار کہے تھے، اگر بغور دیکھا جائے تو اس تحریر میں” میر“ صاحب نے جہاں حضرت مدنی کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی ہے، اس سے کہیں ز یادہ انہوں نے علامہ اقبال کی شخصیت کو داغدار کیا ہے، کیونکہ ان کی تحریر سے یہی تاثر ابھرکر سامنے آتا ہے کہ علامہ اقبال جیسا بڑا آدمی بھی معمولی اور چھوٹے لوگوں کی طرح اپنی انا کے لئے ہجو و مدح کا مشغلہ اپنایا کرتا تھا۔
دوسری طرف تاریخ پاکستان کا ادنیٰ کارکن بھی جانتا ہے کہ ان اشعار کا پس منظر یہ تھا کہ جنوری ۱۹۳۸ء میں شیخ الاسلام حضرت مولاناسید حسین احمد مدنی قدس سرہ نے اپنی ایک تقریر میں دورِ جدید کے نظریہ قومیت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:
”موجودہ زمانہ میں قومیں مذہب سے نہیں، بلکہ اوطان سے بنتی ہیں“
لیگی اخبارات نے حضرت کے اس بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور حضرت مدنی کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ :
”وہ ملت از وطن است“ کے قائل ہیں، اور مسلمانوں کو یہ تلقین کررہے ہیں کہ وہ مذہب کی بجائے وطن کو قومیت کی بنیاد بنائیں“ یہ پروپیگنڈہ اتنا شدید تھا کہ پورے ملک میں حضرت مدنی کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کردیا گیا، اس اخباری پروپیگنڈہ سے متاثر ہوکر علامہ محمد اقبال مرحوم نے بھی حضرت مدنی کے بارہ میں مشہور قطعہ” عجم ہنوز ندا نند رموز ِدیں ورنہ“ لکھ کر اخبارات میں شائع کرادیا۔
اس پر علامہ عبدالرشید نسیم جو طالوت کے قلمی نام سے متعارف تھے، حضرت مدنی اور علامہ اقبال مرحوم دونوں کے عقیدت مند تھے، انہوں نے اس قضیہ کو سلجھانے کے لئے حضرت مدنی کی خدمت میں اصل واقعہ کی تحقیق کے لئے تفصیلی عریضہ لکھا، حضرت مدنی قدس سرہ نے اس کا تفصیلی جواب لکھا اور فرمایا کہ: ”ملت از وطن است“ کا نظریہ لیگی اخبارات کا تراشیدہ خالص تہمت ہے، میں نے اپنی تقریر میں دورِ جدید کا یہ نظریہ ذکر کیا تھا کہ :”قومیں مذہب سے نہیں ،بلکہ اوطان سے بنتی ہیں۔“
مولانا طالوت نے مولانا مدنی کے اس مکتوب کے اقتباسات علامہ کو لکھ بھیجے، علامہ اقبال مرحوم حضرت مدنی کی وضاحت سے مطمئن ہوگئے اور انہوں نے اپنا اعتراض واپس لے لیا، اور اس تنقیدی نظم سے رجوع کرلیا، چنانچہ علامہ کا یہ تردیدی بیان اخبار احسان لاہور میں بایں الفاظ شائع ہوا:
”میں نے مسلمانوں کو وطنی قومیت اختیار کرنے کا مشورہ نہیں دیا۔“
(حضرت مدنی کا بیان)
”مجھے اس اعتراف کے بعد ان پر اعتراض کا کوئی حق باقی نہیں رہتا۔“
(علامہ اقبال کا مکتوب)
”قومیت و وطنیت کے مسئلہ پر ایک علمی بحث کا خوشگوار خاتمہ“
”جناب ایڈیٹر صاحب ”احسان“ لاہور
السلام علیکم !
میں نے جو تبصرہ مولانا حسین احمد صاحب کے بیان پر شائع کیا ہے اور جو آپ کے اخبار میں شائع ہوچکا ہے، اس میں، میں نے اس امر کی تصریح کردی تھی کہ اگر مولانا کا یہ ارشاد: ”زمانہ حال میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں“ محض برسبیل تذکرہ ہے تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور اگر مولانا نے مسلمانانِ ہند کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ جدید نظریہ قومیت کو اختیار کرلیں تو دینی پہلو سے مجھے اس پر اعتراض ہے، مولوی صاحب کے اس بیان میں جو اخبار ”انصاری“ میں شائع ہوا ہے، مندرجہ ذیل الفاظ ہیں:
”لہٰذا ضرورت ہے کہ تمام باشندگان ملک کو منظم کیا جائے، اور ان کو ایک ہی رشتہ میں منسلک کرکے کامیابی کے میدان میں گامزن بنایا جائے، ہندوستان کے مختلف عناصر اور متفرق ملل کے لئے کوئی رشتہ اتحاد بجز قومیت اور کوئی رشتہ نہیں جس کی اساس محض یہی ہوسکتی ہے۔“
ان الفاظ سے تو میں نے یہی سمجھا کہ مولوی صاحب نے مسلمانانِ ہند کو مشورہ دیا ہے، اسی بنا پر میں نے وہ مضمون لکھا جو اخبار ”احسان“ میں شائع ہوا ہے، لیکن بعد میں مولوی صاحب کا ایک خط طالوت صاحب کے نام آیا، جس کی ایک نقل انہوں نے مجھ کو بھی ا رسال کی ہے ،اس خط میں مولانا ارشاد فرماتے ہیں:
”میرے محترم سر صاحب کا ارشاد ہے کہ اگر بیان واقعہ مقصود تھا تو اس میں کوئی کلام نہیں ہے اور اگر مشورہ مقصود ہے تو وہ خلافِ دیانت ہے، اس لئے میں خیال کرتا ہوں کہ پھر الفاظ پر غور کرلیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ تقریر کے لاحق و سابق پر نظر ڈالی جائے، میں یہ عرض کررہا تھا کہ موجودہ زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں، یہ اس زمانے کی جاری ہونے والی نظریت اور ذہنیت کی خبر ہے۔ یہاں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ ہم کو ایسا کرنا چاہئے، یہ خبر ہے، انشا نہیں ہے۔ کسی ناقل نے مشورے کو ذکر بھی نہیں کیا، پھر اس کو مشورہ قرار دینا کس قدر غلطی ہے۔
خط کے مندرجہ بالا اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ مولانا اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ انہوں نے مسلمانانِ ہند کو جدید نظریہ قومیت اختیار کرنے کا مشورہ دیا، لہٰذا میں اس بات کا اعلان ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھ کو مولانا کے اس اعتراف کے بعد کسی قسم کا کوئی حق اعتراض کرنے کا نہیں رہتا، میں مولانا کے ان عقیدت مندوں کے جوش عقیدت کی قدر کرتا ہوں جنہوں نے ایک دینی امر کی توضیح کے صلے میں پرائیویٹ خطوط اور پبلک تحریروں میں گالیاں دیں، خدائے تعالیٰ ان کو مولانا کی صحبت سے زیادہ مستفید فرمائے، نیز ان کو یقین دلاتا ہوں کہ مولانا کی حمیت دینی کے احترام میں، میں ان کے کسی عقیدت مند سے پیچھے نہیں ہوں۔“ محمد اقبال
(اقبال کے ممدوح علماء، ص:۸۶،۸۷)
کیا ”میر“ صاحب یہ بتلانا پسند فرمائیں گے کہ اس میں علامہ اقبال کے خلاف حضرت مدنی  کے کسی فتویٰ کا کہیں ذکر ہے؟ اگر نہیں! اور یقینا نہیں! تو ان کے اس ارشاد کا کیا معنی؟ کہ ”: کچھ مولانا صاحبان نے علامہ اقبال اور قائد اعظم کے خلاف طرح طرح کے فتوے صادر کئے، نوبت یہاں تک آئی کہ علامہ اقبال کو جمعیت علماء ہند کے راہنما مولانا حسین احمد مدنی کے خلاف اشعار کہنا پڑے۔“
”میر“ صاحب !علامہ اقبال نے تو غلط فہمی دور ہونے پر اپنے ان اشعار سے رجوع فرماکر دل صاف کرلیا تھا، لیکن پون صدی گزرنے کے باوجود آج تک آپ کے سینے سے حضرت مدنی کا بغض نہیں نکلا،آخر کیوں؟؟؟
”میر“ صاحب! سیاسی اور نظریاتی اختلاف ہوا کرتے ہیں اور اس کا ہر ایک کو حق ہے، لیکن سیاسی اختلاف کی آڑ لے کر کسی اللہ والے کی کردار کشی کرنا کون سی شرافت و دیانت ہے؟
کیا علامہ اقبال کو قائد اعظم محمد علی جناح سے اختلاف نہیں تھا؟ کیا انہوں نے جناح صاحب کے بارہ میں یہ نہیں فرمایا تھا؟:
”لندن کے چرخ نادرہ فن سے پہاڑ پر
اترے مسیح بن کے محمد علی جناح
نکلے گی تن سے تو کہ رہے گی بتا ہمیں
اے جانِ برلب آمدہ اب تیری کیا صلاح
دل سے خیالِ دشت و بیاباں نکال دے
مجنوں کے واسطے ہے یہی جادہ فلاح
آغا امام اور محمد علی ہے باب
اس دین میں ہے ترکِ سوادِ حرم مباح
بشریٰ لکم کہ منتظر ما رسیدہ ہست
یعنی حجابِ غیبتِ کبریٰ دریدہ ہست“
(روزنامہ زمیندار، مورخہ ۹/نومبر۱۹۲۱ء)
جب علامہ صاحب کا جناح صاحب سے اختلاف ختم ہوگیا اور انہوں نے ان اشعار سے رجوع فرمالیا، تو کیا آپ نے کبھی اپنے کسی کالم میں علامہ کے ان اشعار یا علامہ کے اس اختلاف کا بھی تذکرہ کیا ہے؟ اگر علامہ صاحب کا قائد اعظم صاحب کے بارہ میں یہ رجوع معتبر ہے، تو حضرت مدنی کے بارہ میں ان کا رجوع کیوں معتبر نہیں؟ اگر علامہ کی اس نظم کو بنیاد بناکر قائد اعظم پر تنقید نہیں کی جاسکتی تو علامہ کے رجوع کے باوجود ان کی اس متنازعہ نظم کی آڑ میں حضرت مدنی پر تنقید کیوں کی جاتی ہے؟ اگر علامہ کے رجوع کی وجہ سے ان کے مجموعہ کلام سے قائد اعظم پر تنقید والی نظم حذف کی جاسکتی ہے تو حضرت مدنی کے خلاف لکھی گئی نظم کو رجوع کے باوجود ان کے مجموعہ کلام سے کیوں حذف نہیں کیا جاسکتا؟
اس تصویر کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ فرمایئے،چنانچہ حضرت مولانامحمدیوسف لدھیانوی شہید لکھتے ہیں:
” بعض شخصیتوں کے بارے میں علامہ اقبال نے جو مدحیہ نظمیں کہیں، ان کو بھی چونکہ ”وقتی چیز“ سمجھا گیا، اس لئے پرستار انِ اقبال ان کو اقبال سے منسوب کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے، بلکہ انہیں متروکات سخن شمار کرتے ہیں، اس کی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، مگر یہاں ہم صرف دو مثالوں پر اکتفا کرتے ہیں، پہلی مثال ان مدحیہ اشعار کی ہے جو گاندھی کی تعریف و توصیف میں پڑھے گئے اور جن کا ذکر عبدالمجید سالک نے ”ذکرِ اقبال“ میں کیاہے:
”گاندھی سے اک روز یہ کہتے تھے مالوی
کم زور کی کمند ہے دنیا میں نارسا
نازک یہ سلطنت صفت برگ گل نہیں
لے جائے گلستان سے اڑا کر جسے صبا
گاڑھا ادھر ہے زیب بدن اور ادھرزرہ
صر صر کی رہ گزر میں کیا عرض توتیا
پس کر ملے گا گرد رہ روزگار میں
دانہ جو آسیا سے ہوا قوت آزما
بولا یہ بات سن کر کمال وقار سے
وہ مرد پختہ کار وحق اندیش و باصفا
خارا حریف سعی ضعیفاں نمی شود
صد کوچہ ایست دربن زنداں خلال را“
دوسری مثال ان اشعار کی ہے جو ”وار کانفرنس“ میں تاج برطانیہ کی شان میں پڑھے گئے، عبدالمجید سالک لکھتے ہیں:
”دہلی میں وار کانفرنس منعقد کی تو بطور خاص نواب ذوالفقار علی خان کی وساطت سے علامہ اقبال کو بھی طلب کیا اور اس موقع کے لئے ایک نظم کی فرمائش کی، علامہ نے مجبور ہوکر ایک مسدس لکھا جس کے کل نوبند ہیں، بطور نمونہ دو بند ذیل میں نقل کئے جاتے ہیں، یہ نظم یونیورسٹی ہال لاہور میں پڑھی گئی:
”اے تاج دارِ خطہ جنت نشانِ ہند
روشن تجلیوں سے تری خاورانِ ہند
محکم ترے قلم سے نظامِ جہانِ ہند
تیغ جگر شگاف تری پاسبانِ ہند
ہنگامہ وغامیں مرا سر قبول ہو
اہل وفا کی نذر محقر قبول ہو
تلوار تیری دہر میں نقادِ خیرو شر
بہ روز جنگ توز جگر سوز سینہ در
رایت تری سپاہ کا سرمایہ ظفر
آزادِ پرکشادہ پری زادہ یم سپر
سطوت سے تیری پختہ جہاں کا نظام ہے
ذرے کا آفتاب سے اونچا مقام ہے“
(ذکر ِ اقبال، ص:۸۶،۸۷)
(ارباب اقتدار سے کھری کھری باتیں:ص:۲۴،ج:۱)
کیا کبھی”میر“ صاحب یا ان کے ہمنواؤں نے ان اشعار کو بنیاد بناکر علامہ اقبال کو انگریز یا ہندو سامراج کا حامی کہا؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں، تو ایک غلط فہمی کی بنا پر کہی گئی نظم یا اشعار کو، جن سے بعد میں انہوں نے رجوع بھی کرلیا تھا، حضرت مدنی کی مخالفت کا جواز کیونکر بنایا جاتا ہے؟
”میر“ صاحب نے روزنامہ جنگ ۳۰/مارچ ۲۰۰۹ء کے اپنے کالم اور ”سنہری موقع ضائع ہوگیا“ میں مکرر حضرت مدنی پر تنقید کے جواز میں ڈاکٹر جاوید اقبال کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
” اس نظم کو علامہ اقبال کے مجموعہ کلام میں اس لئے باقی رکھا گیا کہ حضرت مدنی نے علامہ کی وفات کے بعد بھی ان پر حملے جاری رکھے، یہی وجہ تھی کہ اقبال کی وفات کے بعد شعری مجموعہ ”ارمغانِ حجاز“ شائع ہوا تو چوہدری محمد حسین نے اس میں مولانا حسین احمد مدنی کے متعلق اقبال کے تنقیدی اشعار شامل کردیئے۔“
”میر“ صاحب! آپ بھی ”لکھے پڑھے“ ہیں اور اپنے آپ کو تاریخ دان بھی سمجھتے ہیں ،اور آپ کااقبالیات پر مطالعہ بھی ہوگا،کیاآپ نے کہیں حضرت مدنی کاعلامہ کے خلاف کوئی ”حملہ“ دیکھا؟ اگرایسا کچھ تھاتواس کی کوئی ایک آدھ مثال پیش فرمادی ہوتی کہ حضرت مدنی نے کب اور کہاں اور کس بنا پر علامہ اقبال کی کردار کشی کی تھی؟ یا ان پر حملے کئے تھے؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو اس اتہام کا کیا جوازہے؟
جناب ”میر“ صاحب، اپنے کالم ”بلاول کا خیال کیجئے!“ میں حسب عادت مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی اور شیخ الاسلام مولانا سیّد حسین احمد مدنی قدس سرہ کی کردار کشی اور تہمت تراشی سے ”شغل“ فرماتے ہوئے ان پر الزام لگاتے ہیں کہ:
”․․․تحریک پاکستان کے ایک نامور مورخ ڈاکٹر محمد جہانگیر تمیمی نے اپنی کتاب ”زوال سے اقبال تک“میں ایک عجیب قصہ لکھا ہے، فرماتے ہیں کہ ۱۹۳۷ء کے انتخابات میں مفتی کفایت اللہ اور مولانا حسین احمد مدنی مسلم لیگ کی حمایت کے لئے راضی تھے، لیکن انہوں نے اس حمایت کے اخراجات کے لئے پچاس ہزار روپے طلب کئے، یہ رقم اس زمانہ میں بہت زیادہ تھی، قائدا عظم یہ مطالبہ پورا نہ کرسکے اور مولانا صاحبان گانگریس کی طرف چلے گئے، کیونکہ وہاں سے ان کے مالی تقاضے پورے ہوگئے تھے․․․“
اس چند سطری تحریر کے ذریعہ ”میر“ صاحب نے جو ”عظیم“ کارنامہ انجام دیا ہے، باوجود صد مساعی کے انگریز بہادر بھی نہیں دے سکا، ہمارے خیال میں اس تحریر سے جتنا اسلام دشمن قوتیں، خصوصاً ہندو اور انگریز خوش ہوئے ہوں گے، شاید اتنا خود ”میر“ صاحب بھی نہ ہوئے ہوں گے، اس لئے کہ باوجود لاکھ مخالفتوں اور عداوتوں کے انگریز بہادر حضرت شیخ الہند اور ان کے جاں نثاروں پر مالی منفعت کے حصول کا الزام نہیں لگاسکا، اور وہ لگاتا بھی کیسے کہ انگریز کی مخالفت میں حضرت شیخ الہند کے نامور شاگرد حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی قدس سرہ نے حرمین کے قیام، روضہٴ اطہر اور مسجد نبوی کے جوار، حدیث نبوی کی تدریس اور آزادی کی زندگی پر انگریز کی مخالفت اور کالا پانی کی قید تنہائی کو ترجیح دی۔ ”میر“ صاحب! اگر یہ لوگ روپے پیسے کی لالچ رکھتے تو یقینا ہندوؤں اور مسلم لیگ والوں سے زیادہ انگریز ان کی قیمت لگاتا، اگر دنیاوی اور مالی منفعت ان کا مقصود ہوتا تو ان کو بھی ”سر“ کا خطاب مل جاتا، ان کو بھی جاگیریں مل جاتیں، ان کو بھی سرکار انگریز کا تقرب حاصل ہوجاتا، ان کو تحریک ریشمی رومال، تحریک شہیدین، شاملی، اور ۱۸۵۷ء کی جنگیں لڑنے کی ضرورت کیوں پیش آتی؟ ان کے خلاف پھانسی کے پھندے کیوں تیار کئے جاتے؟ اور انہیں انگریزی فوج میں بھرتی کے خلاف فتویٰ دینے کی نوبت نہ آتی اور ان کو یہ دھمکی بھی نہ سننا پڑتی کہ:” مولانا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے اس فتویٰ پر آپ کو پھانسی کی سزا ہوسکتی ہے“ اور خالق دینا ہال میں انہیں یہ کہنے کی تکلیف بھی نہ کرنا پڑتی کہ:” جی ہاں! معلوم ہے، جب ہی تو میں اپنا کفن اپنے ساتھ لے کر آیا ہوں“ اگر ان کو مالی منفعت عزیز ہوتی تو وہ مسجد نبوی کی تدریس کیوں چھوڑتے؟ وہ آزادی کی زندگی پر قید تنہائی کو کیوں ترجیح دیتے؟ اگر ان کو دنیائے دنی کا خیال ہوتا تو مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف آتش زیر پا کیوں کرتے؟ اگر ان کو دنیاہی لینا تھی تو وہ فقیری کو کیوں ترجیح دیتے؟ اگر ان کو مال و اسباب مطلوب ہوتا تو وہ ساری زندگی ایسی عسر اور تنگی کی زندگی کیوں گزارتے کہ گھر میں ایک بجلی کا پنکھا تک نہ لگاسکے؟ اور پوری عمر گھر میں غسل خانہ نہ بناسکے؟ اور گھر کے اندرونی کمرے میں بنے قدمچے پر غسل کرتے رہے؟ اگر ان کو مالی مفادات حاصل کرنا ہوتے تو بلاتنخواہ دارالعلوم دیوبند سے چھٹی لے کر مسلم لیگ کی حمایت میں مسلمانوں کو بیدار نہ کرتے؟ اگر ان کو مال و اسباب ہی سمیٹنا تھا تو وہ جامعہ ازہر کی مسند تدریس، اس وقت کا ایک ہزار مشاہرہ، مکان، گاڑی ،سالانہ آمد و رفت کے ٹکٹ کو چھوڑ کر دارالعلوم دیوبند کی معمولی تنخواہ پر گزارا کیوں کرتے؟ اگر ان کو عزت و جاہ اور ناموری و شہرت مطلوب ہوتی تو آزادی کے بعد ہندوستان کے سول اعزاز ”پدم بھوشن“ کو کیوں ٹھکراتے؟ اگر ان کو راحت و عافیت مطلوب ہوتی اور ان کی مساعی ،مفادات کے گرد گھومتیں تو وہ تھرڈ کلاس میں سفر کیوں کرتے؟ اگران کامقصد مال سمیٹناہوتاتو وہ حزم و احتیاط کا اس قدر پاس کیوں کرتے کہ جمعیت علماء ہند کے امیر ہونے کے باوجود اپنی ذاتی ضرورت کے لئے جمعیت علماء کے لیٹر پیڈ کے استعمال سے احتراز کرتے؟”میر“صاحب!اگریہ لوگ پیسے کے بھوکے ہوتے توحضرت مفتی کفایت اللہ دولاکھ کی خطیر رقم کیوں ٹھکراتے؟
”میر“ صاحب! ایسے باخدا، رشک ملائک اور کردار کے غازیوں پر ایسے ناروا اور گھٹیا الزام لگانا کیا آسمان پر تھوکنے کے مترادف نہیں ہے؟ کیا اس طرح کرنے سے آپ کی عزت بڑھ جائے گی؟ یا ان کا مقام گر جائے گا؟
ہائے افسوس !کہ آج اخلاقی قدریں اس قدر زوال پذیرہوگئی ہیں کہ جن کی شرافت، دیانت، تقویٰ، طہارت، خداخوفی کے کٹر سے کٹر مخالف، حتی کہ اسلام دشمن ہندو اور انگریز بھی قائل و معترف تھے اور باوجود لاکھ عداوت کے، ان کے خلاف ایسا کوئی الزام و افترأ نہیں تراش سکے تھے، آج انہیں نفوس قدسیہ کے خلاف ان لوگوں کا قلم اور زبان حرکت میں ہے، جن کے عقائد و اعمال اور سیرت و کردار اور ماضی و حال کا کچھ پتہ نہیں اور ان کا قبلہ بدلتی حکومتوں کے ساتھ تبدیل ہوجاتا ہے، جو غرض و فرض میں امتیاز و تمیز نہیں کرسکتے ،جن کا معاش قلم و کالم کا مرہون منت ہے ،جو اربابِ اقتدار کی نگاہ انتقام کی تاب نہیں لاسکتے، جو اپنے باس اور افسر کی نگاہ التفات کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار رہتے ہیں اور بڑوں کی ہر ناجائز کو جواز کا چولا پہنانے کی فکر میں رہتے ہیں۔
تاہم ”میر“ صاحب کی غلط فہمی دور کرنے کے لئے ہم اتنا عرض کریں گے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ نے اپنے ممدوح ”نامور موٴرخ“ تمیمی صاحب کی ”اچھوتی تاریخ“ اور ان کے تاریخی ”انکشافات“ کے علاوہ مشہور مسلم لیگیوں کی تحریریں بھی پڑھی ہو تیں، تو آپ کوا س مبنی بر عداوت پروپیگنڈا سے متاثر ہونے، اسے اپنی تحریر کا حصہ بنانے اور بعد میں اس کی تغلیط کی وجہ سے خفت و شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑتا، لیجئے اس سلسلہ کے حقائق پڑھئے اور سر دھنیئے:
حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب اور شیخ الاسلام حضرت مدنی پر سب سے پہلے کیچڑ اچھالنے کی ”سعادت“ رافضی مکتبہ فکر کے مشہور مسلم لیگی راہنما ابوالحسن اصفہانی کے حصہ میں آئی ہے، دیکھئے اقبال کے آخری دو سال، ص:۳۸۸، ۳۸۹، مصنفہ عاشق حسین بٹالوی، اس کے بعد جس نے بھی اس حوالہ کو نقل کیا ہے، اس نے ابوالحسن اصفہانی کی اس قے کو چاٹا ہے۔ افسوس کہ آپ نے بھی تمیمی صاحب کے کہنے پر ابوالحسن اصفہانی کی اس قے کو چاٹنے کی ”سعادت“ حاصل کرلی۔ ۱۹۳۷ء کے انتخابات سے قبل جمعیت علماء ہند سے اتحاد کی خواہش کا اظہار مسلم لیگ اور مسٹر محمد علی جناح نے ۱۹۳۴ء کے مرکزی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم لیگ کی ناکامی کے بعد کیا تھا، اس سلسلہ میں سیّد طفیل احمد منگلوری لکھتے ہیں: ”آخر ۱۹۳۲ء میں آل مسلم پارٹیز کانفرنس کے جلسے لکھنوٴ میں منعقد ہوئے تھے ، اس کے دو سال بعد آخر ۱۹۳۴ء میں مرکزی اسمبلی کے انتخابات کا وقت آیا تو اسی سال آل مسلم پارٹیز کے کارکنوں نے ایک جماعت ”مسلم یونٹی بورڈ“ کے نام سے زیر صدارت راجہ سیّد احمد علی خان علوی راجہ سلیم پور قائم کرکے صوبہ متحدہ، صوبہ متوسط، صوبجات بہار و مدراس میں الیکشن لڑائے، یونٹی بورڈ کے مقابلہ میں بعض صوبوں میں ”مسلم لیگ پارلیمنٹری مجلس“ کے نام سے ایک جماعت کھڑی ہوئی، مگر یونٹی بورڈ کے مقابلہ میں ناکام رہی، یونٹی بورڈ کی کامیابی میں جمعیت العلماء کا بھی بڑا حصہ رہا تھا، کامیابی کے بعد یونٹی بورڈ کے نمائندوں اور دوسرے مسلمان ممبروں نے مرکزی اسمبلی میں بسر کردگی محمد علی جناح کانگریس پارٹی کے ساتھ اتحاد عمل کرکے مسلسل دو سال تک حکومت کو خوب خوب شکستیں دیں۔“
(روشن مستقبل ص:۴۵۰، روحِ روشن مستقبل، ص:۱۲۷)
چونکہ ۱۹۳۴ء کے انتخابات اور ان کے نتائج کی روشنی میں بانی پاکستان جان چکے تھے کہ علماء کے بغیر ۱۹۳۶ء کے انتخابات میں کامیابی ممکن نہیں، اس لئے انہوں نے متحدہ مسلم محاذ کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کے لئے جمعیت علماء ہند کے اکابرین سے رجوع کیا، اس سلسلہ کی تفصیلات حضرت مدنی  کی زبانی سنیئے:
”مسٹر جناح نے ۱۹۳۶ء کے الیکشن کے لئے جمعیت علماء ہند سے اتحاد و تعاون چاہا، وہ زمانہ ولنگٹن کی حکومت کا تھا اور آزادی خواہ جماعتوں کی ہر قسم کی غیر قانونی جدوجہد پر سخت قانونی پابندیاں عائد تھیں، مسٹر جناح نے ہم سے چند گھنٹے گفتگو کی اور درخواست پر زور دیا اور کہا کہ میں ان رجعت پسندوں سے عاجز آگیا ہوں اور ان کو رفتہ رفتہ لیگ سے خارج کرکے آزاد خیال اور ترقی پسند لوگوں کی جماعت بنانا چاہتا ہوں، تم لوگ اس میں داخل ہوجاؤ، ہم نے عرض کیا کہ اگر آپ ان لوگوں کو خارج نہ کرسکے تو کیا ہوگا؟ تو فرمایا کہ اگر میں ایسا نہ کرسکا تو میں تم لوگوں میں آجاؤں گا اور لیگ چھوڑ دوں گا، اس پر مولانا شوکت علی مرحوم اور دیگر حضرات نے اطمینان کیا اور تعاون کرنے پر تیار ہوگئے۔“
(مکتوبات شیخ الاسلام، ص:۳۶۰، ج:۱)
یہ تو حضرت مدنی کی زبانی احوال تھا، بانی پاکستان اس سلسلہ میں کیا کہتے ہیں ، لیجئے پڑھیئے، چنانچہ سیّد طفیل احمد منگلوری لکھتے ہیں:
”اس کے بعد (یعنی مرکزی اسمبلی کے انتخابات کے بعد) جبکہ صوبوں کی اسمبلیوں کے انتخابات کا وقت آیا تو شروع ۱۹۳۶ء میں یونٹی بورڈ کی مجلس عاملہ نے دہلی میں ایک اجلاس منعقد کیا، اس میں مسٹرجناح کی طرف سے مسٹر عبدالمتین چوہدری نے کہا کہ بجائے یونٹی بورڈ کے مسلم لیگ کے نام سے الیکشن لڑائے جائیں اور اس پرانی جماعت کو مضبوط کیا جائے، دوسرے روز قرول باغ میں مولانا شوکت علی کے مسکن پر اس بارہ میں مفصل مشورہ ہوا جس میں یونٹی بورڈ، مسلم لیگ اور جمعیت العلما ہند کے خاص خاص اراکین شامل تھے۔ اس میں یہ بحث پیش آئی کہ جو لوگ اپنا مسلک کامل آزادی رکھتے ہیں وہ مسلم لیگ کے ممبر کس طرح بن جائیں؟ اس پر مسٹر جناح نے کہا کہ جو لوگ آگے ہیں ان کا پیچھے والوں کے ساتھ شامل ہوجانا کوئی قابل اعتراض عمل نہیں ہے، ہم لوگ آپ کے پیچھے چلیں گے، اس وقت حاضرین میں سے ایک صاحب نے کہا کہ آپ ۱۹۲۰ء میں بھی تو ہمارے ساتھ تھے، اب اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آئندہ بھی آپ ساتھ رہیں گے؟ مسٹر جناح نے فرمایا کہ: نہیں! ”میں اب ساتھ سے نہیں ہٹوں گا “ اسی سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ: ”میں آزادی خواہ طاقتوں کی حمایت کروں گا، خود غرض، سرکار پرستوں اور سرکاری عنصر کو مسلم لیگ پارلیمنٹری بورڈ میں نہ لوں گا․․․ اور مذہبی معاملات میں ہر فیصلہ علماء ہند کی رائے کے مطابق کروں گا، اگر اس سے معذور رہا تو مسلم لیگ چھوڑ کر آزادی خواہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر کام کروں گا“ ان معاہدوں کے بعد قرار پایا کہ بجائے مسلم لیگ کے ”مسلم لیگ پارلیمنٹری بورڈ“ الیکشن کی غرض سے قائم کیا جائے، جس میں تمام مسلم جماعتیں شریک ہوں۔“ (روح روشن مستقبل، ص:۱۲۷،۱۲۸)
الغرض جمعیت علماء ہند اور ہندوستان کی دیگر آزادی خواہ جماعتوں نے پوری جدوجہد کرکے مسلم لیگ کی کامیابی کی محنت اور جدوجہد کی ،تاآنکہ مسلم لیگی لیڈر جناب خلیق الزمان کو کہنا پڑا کہ: ”تیس برس کی مردہ لیگ کو تونے زندہ کیا“ لیجئے حضرت مدنی  کی زبانی سنیئے:
”چنانچہ ہم نے پورا تعاون کیا اور تقریباً پونے دو مہینے کی رخصت بوضع تنخواہ دارالعلوم سے لی اور اتنی جدوجہد کی کہ ایگریکلچرسٹ پارٹی اور دوسرے رجعت پسند امیدواروں کو شکست ہوئی اور تیس یا اس سے زائد ممبر لیگ کے کامیاب ہوئے، جس پر چوہدری خلیق الزماں نے مجھ کو ایک خط میں لکھا کہ:” تیس برس کی مردہ لیگ کو تونے زندہ کیا“ ہم نے لیگ کا تعارف عام مسلمانوں سے کرایا اور لیگ کی آواز کو ہر جگہ پہنچایا، اس وقت مسٹر جناح نے جمعیت کا تیار کیا ہوا مینی فسٹو قبول کیا اور (اخبار) تیج میں شائع کیا ،جس کی پہلی دفعہ یہ تھی کہ اسمبلیوں اور کونسلروں میں اگر خالص مذہبی مسئلہ پیش ہوگا تو جمعیت علماء ہند کی رائے کو خاص وقعت اور اہمیت دی جائے گی۔“ (مکتوبات شیخ الاسلام، ص:۳۶۱، ج:۱)
جناح صاحب کے انتخابی مینی فسٹو کی قبولیت کے بارہ میں حضرت مدنی  کی ہمنوائی کرتے ہوئے پروفیسر محمد خلیل اللہ لکھتے ہیں:
”لیگ نے اپنا انتخاب نامہ (الیکشن مینی فسٹو) شائع کیا، جس میں کہا گیا کہ اسمبلیوں میں مسلم لیگی ارکان مذہبی معاملات میں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے سلسلہ میں جمعیت علماء ہند کی رائے اور فیصلوں کو پوری وقعت دیں گے۔“
(تحریک ِ پاکستان، ص:۲۵۲، از پروفیسر محمد خلیل اللہ وائس پرنسپل اردو کالج کراچی)
اسی طرح ۱۹۳۷ء کے انتخاب میں علماء نے مسلم لیگ کی حمایت و تعاون میں کیاکردار ادا کیا؟ چوہدری خلیق الزمان لکھتے ہیں:
”ہماری خوش قسمتی سے مولانا شوکت علی خلافت کے مایہ ناز لیڈر اس وقت زندہ تھے،انہوں نے مفتی عنایت اللہ اور مولانا جمال میاں کی معیت میں پورے صوبہ کا دورہ کیا، مولانا حسین احمد، مولانا احمد سعید، مولانا حامد بدایونی اور مولانا کرم علی نے مسلم پارلیمنٹری بورڈ کی حمایت میں سارے صوبہ کی خاک چھان ڈالی․․․۔“ (شاہراہِ پاکستان، ص:۶۱۸)
اس انتخاب میں جمعیت علماء ہند اور دوسری آزادی خواہ جماعتوں کی محنت و جدوجہد کے طفیل مسلم لیگ کے ۲۹ نمائندے کامیاب ہوگئے، لیجئے چوہدری خلیق الزمان کی زبانی سنیئے:
”ہمارے ۳۶ نمائندوں میں ۲۹ نمائندے کامیاب ہوئے یعنی تقریباً ہم کو ۸۰ فیصد کامیابی ہوئی، کانگریس کی ٹکٹ پر کوئی مسلمان یو پی سے کامیاب نہ ہوا۔“ (شاہراہ پاکستان، ص:۶۱۸)
”میر “ صاحب! کیا ان مذکورہ بالا حوالہ جات اور تفصیلات سے یہ بات صاف اور بے غبار نہیں ہوجاتی کہ مسٹر جناح اور اکابرین جمعیت کے درمیان ہونے والی گفتگو یا مسلم یونٹی بورڈ کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں جس میں جمعیت کے مرکزی رہنما بھی موجود تھے، اکابرین جمعیت کی طرف سے کسی قسم کی رقم کا مطالبہ یا مسٹر جناح کی طرف سے اس کے انکار، اور انکار پر جمعیت کی علیحدگی کا ذکر تک نہیں ہے۔ اسی طرح کیا حضرت مدنی  اور چوہدری خلیق الزمان کی عبارات سے یہ بات بخوبی واضح نہیں ہوجاتی کہ ۱۹۳۶ء کے انتخابات میں بغیر کسی لالچ اور رغبت کے جمعیت کا پورا تعاون مسلم لیگ کے ساتھ رہا اور جمعیت کی مساعی سے مردہ لیگ کو زندہ اور عوام میں متعارف کرایا گیا؟ اور بقول چوہدری خلیق الزمان حضرت مولانا حسین احمد مدنی  اور حضرت مولانا احمد سعید صاحب نے دیگر علماء کی معیت میں مسلم پارلیمنٹری بورڈ کی حمایت میں پورے صوبہ یو پی کی خاک چھان ڈالی، جس کے نتیجے میں ۲۹ ارکان لیگ کامیاب ہوئے۔اگر ان حضرات کی علیحدگی رقم کامطالبہ پورانہ ہونے پر ہوتی تو وہ انتخابات سے پہلے الگ نہ ہوجاتے؟ اگر ان حضرات کی حمایت پچاس ہزار روپے کے عوض تھی، تو رقم نہ ملنے کی صورت میں انہوں نے مسلم لیگ کی حمایت کیوں کی؟ اور مسلم لیگ کو ۲۹ سیٹوں پرکامیاب کیوں کرایا؟
”میر“ صاحب !آپ ہی بتلایئے : کہ آپ کو اس پوری روئیداد میں کہیں کسی رقم کا مطالبہ نظر آیا؟ یاانتخابات سے پہلے الگ ہونے یاحمایت نہ کرنے کاکہیں ذکرنظرآیا؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو اس اتہام و بہتان کا کیا معنی؟
ہم صرف اسی پر اکتفا نہیں کریں گے ،بلکہ ہم ان حضرات کی پاکدامنی اور مسلم لیگ کی حمایت کے دوران سفر خرچ کے حساب و کتاب اور صفائی معاملات کی شہادت بھی چوہدری خلیق الزماں کی زبانی سنانا چاہیں گے، لیجئے پڑھیےٴ:
”اس الیکشن کے سلسلے میں پنڈت جواہر لال کا ایک خط رفیع احمد کے نام مسلم لیگ والوں کے ہاتھ لگ گیا، جس میں مولانا حسین احمد کو روپیہ دینے کے متعلق ذکر تھا، اس کو مسلم لیگ والوں نے خوب خوب اچھالا، تاکہ عوام یہ سمجھ لیں کہ نثار احمد شیروانی، جن کی جمعیت علماء تائید کررہی تھی، وہ دراصل کانگریسی نمائندے ہیں، یہ تو واقعہ تھا کہ وہ کانگریسی نمائندے تھے، مگر مولانا حسین احمد کو روپیہ دینے کے معاملے میں ان پر الزام صحیح نہیں تھا، کیونکہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ جب کبھی میں نے ان کو انتخابات کے دورے وغیرہ کے مصارف کے متعلق روپیہ دیا تو اس کا ایک ایک پیسے کا حساب انہوں نے مجھے دیا اور بقیہ رقم مجھے واپس کردی، اس لئے میرا خیال ہے کہ جس روپے کا ذکر تھا وہ انہیں الیکشن کے مصارف کے متعلق دیا گیا ہوگا۔“ (شاہراہ پاکستان، ص:۶۳۴)
ہمارا خیال ہے کہ چوہدری خلیق الزمان کی اس شہادت کے بعد نسلی تو کجا کسی” فصلی میر“ کو بھی ان حضرات کی پاکدامنی میں شک نہیں رہنا چاہئے، لہٰذا ”میر“ صاحب کو اس کڑوے سچ کو نگل لینا چاہئے، اگر انہوں نے یہ ہمت کرلی تو انشاء اللہ !اس کی برکت سے اکابرین امت سے بدظنی و بدگمانی کی تمام مہلک روحانی بیماریاں ان کے دل ودماغ سے کافور ہوجائیں گی۔
اب رہی یہ بات کہ جمعیت علماء ہند مسلم لیگ سے کب اور کیوں الگ ہوئی تھی؟ اور اس کے اسباب و محرکات کیا تھے؟ اس کے لئے حضرت مولانا حسین احمد مدنی قدس سرہ کی وضاحت پڑھئے:
”مگر افسوس کہ لیگ نے کامیاب ہونے کے بعد پہلے ہی ا جلاس لکھنو ٴ میں اپنے عہد و وفا کو توڑ دیا اور ان رجعت پسند، خوشامدی، انگریز پرست لوگوں کو لیگ پارٹی میں داخل کرنے کے خواستگار پُرزور طریقہ پر ہوئے جن کو خارج کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اور ان کے متعلق ہر شخص کو معلوم تھا کہ ہمیشہ ان کی زندگی قومی تحریکات کی مخالفت اور انگریز پرستی میں گزری ہے، ان سے وہیں کہا گیا کہ آپ نے توو عدہ کیا تھا کہ ان لوگوں کو نکال دیا جائے گا اور آج ان کو لیگ میں لانے اور پارٹی میں ان کو جگہ دینے کی کوشش کررہے ہیں تو بگڑ کر کہا کہ وہ پولیٹیکل وعدے تھے، علاوہ اس کے اور متعدد اعمال خلاف اعلان عہود کئے، جس کی بنا پر سخت مایوسی ہوئی اور بجز علیحدگی اور کوئی صورت سمجھ میں نہ آسکی، انہوں نے مرکزی اسمبلی میں شریعت بل پاس نہ ہونے دیا۔ قاضی بل کی سخت مخالفت کی، انفساخ نکاح کے متعلق غیر مسلم حاکم کی شرط کو قبول کرلیا ،آرمی بل پاس کیا وغیرہ وغیرہ۔“ (مکتوبِ شیخ الاسلام، ص:۳۶۱، ج:۱)
ان تفصیلات سے واضح ہوگیا کہ جب مسلم لیگ جیت گئی اور اس نے اپنے وعدہ کا پاس نہ کیا تو اکابرین جمعیت نے ان کی بدعہدی کے پیش نظران سے علیحدگی اختیار کرلی۔ ”میر“ صاحب مکرر عرض ہے کہ ۱۹۳۷ء کے انتخابات کی پوری تفصیل، مسلم لیگ کی کامیابی، انتخابی مہم میں جمعیت علماء کی جدوجہد وغیرہ میں آپ کو کہیں کسی رقم کا مطالبہ نظر آیا؟ جب کہیں کسی رقم کا مطالبہ نہیں، تو ان پاکبازوں پر الزام تراشی کون سی شرافت و دیانت ہے؟ پھر آج جب اس قضیہ اور ان حضرات کی رحلت و وفات کو پون صدی کا عرصہ گزر چکا، اب اس کو اٹھانا، اچھالنا، اس کے ذریعے ان پاک نفوس پر الزام لگانا، ان کے پاک وصاف کردار کو داغ دار کرنا اور ان کے لاکھوں معتقدین کو اذیت پہنچانا اور نئی نسل کو ان مقربین الٰہی سے بدظن کرنا، کون سی ملک و ملت کی خدمت ہے؟ کیا ان کا یہی جرم تھا کہ انہوں نے مردہ مسلم لیگ میں روح پھونک دی تھی اور ان کے ۲۹ نمائندے کامیاب کرائے تھے اور بلاتنخواہ دارالعلوم دیوبند سے رخصت لے کر پورے ہندوستان کا چکر لگاکر مسلمانوں کو بیدار کیا تھا؟ اور ہندوؤں کے مقابلہ میں مسلم لیگ کو ووٹ دینے کی محنت وجہد کی تھی؟ کیا ایسے محسن ، اس کے مستحق ہیں کہ ان کو بدنام کیا جائے؟ اور ان کے اجلے کردار کو داغ دار کیا جائے؟
”میر“ صاحب! کیا آپ یہ برداشت کریں گے کہ آپ کے بڑوں کے خلاف خود ساختہ الزامات تراش کر انہیں بدنام کیا جائے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو آنجناب ان اکابر کے خلاف اس یاوہ گوئی پر کیوں مصر ہیں؟؟؟

پیر، 22 اکتوبر، 2012

یہ بستی میری بستی ہے


یہ بستی میری بستی ہے !

یہ بستی کیسی بستی ہے 
یہ بستی میری بستی ہے 
اس بستی میں ہے ظلم بہت 
اس بستی میں انصاف نہیں 
اس بستی میں ہے میرا گھر 
اس گھر کے لوگ نرالے ہیں 
یہ من موجی متوالے ہیں
بیباک بہت یہ جیالے ہیں  
یہ خان وڈیرے فوجی ہیں 
یہ چودری ہیں من موجی ہیں
ہے اس گھر میں اک بیچارہ 
معصوم ہے یہ مظلوم ہے یہ 
یہ سب سے دھوکے کھاتا ہے
یہ بھوکا ہی سو جاتا ہے 
اس گھر میں کوئی جادو ہے 
آسیب بڑا بے قابو ہے 
اس گھر کے سونے آنگن میں 
بس ویرانی ویرانی ہے 
اس گھر میں روشن دان نہیں 
اس گھر میں بس اک کھڑکی ہے 
اس کھڑکی میں جو منظر ہے 
وہ جھوٹے خؤب دکھاتا ہے 
وہ سب کا دل بہلاتا ہے 
اس بستی میں رہنے والے 
اس گھر سے ہیں بیزار بہت 
یہ سارے ہیں بیمار بہت 
یہ بستی والے چاہتے ہیں 
اس گھر کی دیواریں ڈھے جائیں 
کچھ ان کے ارادے ٹھیک نہیں 
اس بستی کے سب لوگوں میں 
کچھ ایسے لوگ بھی رہتے ہیں 
جو سینہ تان کے کہتے ہیں
ہاں ہمکو ایسا پاگل پن
منظور نہیں مطلوب نہیں 
غمخوار ہیں وہ 
ہمدرد ہیں وہ 
اے مرے گھر کے رکھوالوں 
ان لوگوں کو پہچان لو تم 
یہ لوگ تمھارے لوگ ہی ہیں 
ہاں انکا کہنا مان لو تم 
یہ بستی کیسی بستی ہے 
یہ بستی میری بستی ہے .

شاعر
حسیب احمد حسیب 

اتوار، 21 اکتوبر، 2012

اہل تصوّف کی دینی جدوجہد

اہل تصوّف کی دینی جدوجہد
مولانا سید ابو الحسن علی ندویدنیا میں بہت سی چیزیں بعض خاص اسباب کی بنا پر بغیر علمی تنقید وتحقیق کے تسلیم کر لی جاتی ہیں اور ان کو ایسی شہرت ومقبولیت حاصل ہو جاتی ہے کہ اگرچہ ان کی کوئی علمی بنیاد نہیں ہوتی ، مگر خواص بھی ان کو زبان وقلم سے بے تکلف دہرانے لگتے ہیں ۔
انہیں مشہور اور بے اصل چیزوں میں سے یہ بات بھی ہے کہ تصوف تعطل وبے عملی، حالات سے شکست خوردگی اور میدان جدوجہد سے فرار کا نام ہے۔ لیکن عقلی ونفسیاتی طور پر بھی اور عملی اور تاریخی حیثیت سے بھی ہمیں اس دعوے کے خلاف مسلسل طریقہ پر داخلی وخارجی شہادتیں ملتی ہیں۔
” سیرت سید احمد شہید میں تزکیہ واصلاح باطن کے عنوان کے ماتحت خاکسار راقم نے حسب ذیل الفاظ لکھے تھے، جس میں آج بھی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور اس حقیقت پر پہلے سے زیادہ یقین پیدا ہو گیا ہے ۔
”یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سر فروشی، وجاں بازی ، جہاد وقربانی اورتجدید وانقلاب وفتح وتسخیر کے لیے جس روحانی وقلبی قوت، جس وجاہت وشخصیت، جس اخلاق وللٰہیت ، جس جذب وکشش اور جس حوصلہ وہمت کی ضرورت ہے ، وہ بسااوقات روحانی ترقی ، صفائی باطن ، تہذیب نفس ، ریاضت وعبادت کے بغیر نہیں پیدا ہوتی، اس لیے آپ دیکھیں گے کہ جنہوں نے اسلام میں مجددانہ کارنامے انجام دیے ہیں ، ان میں سے اکثر افراد روحانی حیثیت سے بلند مقام رکھتے تھے ، ان آخری صدیوں پر نظر ڈالیے ، امیر عبدالقادر الجزائری، (مجاہد جزائر) ، محمد احمد السوڈانی ( مہدی سوڈانی)، سید احمد شریف السنوسی ( امام سنوسی) کو آپ اس میدان کا مرد پائیں گے ، حضرت سید احمد ایک مجاہد قائد کے علاوہ اور اس سے پہلے ایک عزیز القدرروحانی پیشوا اور بے مثل شیخ الطریقت تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ مجاہدات وریاضات ، تزکیہ نفس اور قرب الہیٰ سے عشق الہٰی اور جذب وشوق کا جو مرتبہ حاصل ہوتا ہے ، اس میں ہر رونگٹے سے یہی آواز آتی ہے #ہمارے پاس ہے کیا جو فدا کریں تجھ پرمگر یہ زندگی مستعار رکھتے ہیںاس لیے روحانی ترقی او رکمال باطنی کا آخری لازمی نتیجہ شوق شہادت ہے او رمجاہدے کی تکمیل جہا دہے ۔ ( سیرت سید احمد شہید)
نفسیاتی پہلو سے غور کیجیے گا تو معلوم ہو گا کہ یقین اور محبت ہی وہ شہپر ہیں ، جن سے جہاد وجد وجہد کا شہباز پرواز کرتا ہے ، مرغوبات نفسانی، عادات ، مالوفات ، مادی مصالح ومنافع ، اغراض وخواہشات کی پستیوں سے وہی شخص بلند ہو سکتا ہے اور ﴿لکنہ أخلد إلی الارض واتبع ھواہ﴾ کے دام ہم رنگ زمین سے وہی شخص بچ سکتا ہے ، جس میں کسی حقیقت کے یقین اور کسی مقصد کے عشق نے پارہ کی ” تقدیر سیمابی“ اور بجلیوں کی بیتابی پیدا کر دی ہو۔
انسانی زندگی کا طویل ترین تجربہ ہے کہ محض معلومات وتحقیقات اورمجرد قوانین وضوابط اور صرف نظم وضبط سرفروشی وجانبازی بلکہ سہل ترایثاروقربانی کی طاقت وآمادگی پیدا کرنے کے لیے بھی کافی نہیں ہے ، اس کے لیے اس سے کہیں زیادہ گہرے اور طاقتور تعلق اور ایک ایسی روحانی لالچ اور غیر مادی فائدے کے یقین کی ضرورت ہے کہ اس کے مقابلے میں زندگی باردوش معلوم ہونے لگے، کسی ایسے ہی موقع او رحال میں کہنے والے نے کہا تھا #جان کی قیمت دیار عشق میں ہے کوئے دوستاس نویدِ جاں فزا سے سر وبال دوش ہےاس لیے کم سے کم اسلام کی تاریخ میں ہر مجاہدانہ تحریک کے سرے پر ایک ایسی شخصیت نظر آتی ہے جس نے اپنے حلقہ مجاہدین میں یقین ومحبت کی یہی روح پھونک دی تھی اور اپنے یقین ومحبت کو سیکڑوں اور ہزاروں انسانوں تک منتقل کرکے ان کے لیے تن آسانی اور راحت طلبی کی زندگی دشوار اور پامردی وشہادت کی موت آسان اور خوش گوار بنا دی تھی اور ان کے لیے جینا اتناہی مشکل ہو گیا تھا جتنا ، دوسروں کے لیے مرنا مشکل تھا یہی، سر حلقہ وہ امام وقت ہے جس کے متعلق اقبال مرحوم نے کہا ہے #ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحقجو تجھے حاضر وموجود سے بیزار کرےموت کے آئینہ میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست زندگی اوربھی تیرے لیے دشوار کرےدے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرےمعمولی او رمعتدل حالات میں قوموں کی قیادت کرنے والے ، فتح ونصرت کی حالت میں لشکروں کو لڑانے والے ہر زمانے میں ہوتے ہیں ، اس کے لیے کسی غیر معمولی یقین وشخصیت کی ضرورت نہیں ، لیکن مایوس کن حالات اور قومی جان کنی کی کیفیات میں صرف وہی مرد میدان حالات سے کش مکش کی طاقت رکھتے ہیں جو اپنے خصوصی تعلق بالله اور قوت ایمانی وروحانی کی وجہ سے خاص یقین وکیفیت عشق کے مالک ہوں، چناں چہ جب مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے تاریک وقفے آئے کہ ظاہری علم وحواس وقوت مقابلہ نے جواب دے دیا اور حالات کی تبدیلی امر محال معلوم ہونے لگی تو کوئی صاحب یقین وصاحب عشق میدان میں آیا، جس نے اپنی ”جرات رندانہ“ اور ”کیفیت عاشقانہ “ سے زمانے کا بہتا ہوا دھارا بدل دیا اور الله تعالیٰ نے ﴿یخرج الحی من المیت﴾ اور ﴿یحیی الارض بعد موتھا﴾ کا منظر دکھایا۔
تاتاریوں نے جب تمام عالم اسلام کو پامال کرکے رکھ دیا، جلال الدین خوارزم شاہ کی واحد اسلامی سلطنت اور عباسی خلافت کا چراغ ہمیشہ کے لیے گل ہوگیا ، تو تمام عالم اسلام پریاس ومردنی چھا گئی ، تاتاریوں کی شکست ناممکن الوقوع چیز سمجھی جانے لگے او ریہ مثال زبان وادب کا جزو بن گئی کہ ”اذا قیل لک ان التتر انھز موالاتصدق“ ( اگر تم سے کوئی کہے کہ تاتاریوں نے شکست کھائی تو کبھی یقین نہ کرنا) اس وقت کچھ صاحب یقین اور صاحب قلوب مردان خدا تھے ، جومایوس نہیں ہوئے او راپنے کام میں لگے رہے، یہاں تک کہ تاتاری سلاطین کو مسلمان کرکے صنم خانہ سے کعبہ کے لیے پاسباں مہیا کر دیے۔
ہندوستان میں اکبر کے دور میں ساری سلطنت کا رخ الحاد ولا دینیت کی طرف ہو گیا ، ہندوستان کا عظیم ترین بادشاہ ایک وسیع وطاقت ور سلطنت کے پورے وسائل وذخائر کے ساتھ اسلام کا امتیازی رنگ مٹانا چاہتا تھا ، اس کو اپنے وقت کے لائق ترین وذکی ترین افراد اس مقصد کی تکمیل کے لیے حاصل تھے ، سلطنت میں ضعف وپیرانہ سالی کے کوئی آثار ظاہر نہ تھے کہ کسی فوجی انقلاب کی امید کی جاسکے، علم وظاہری قیاسات کسی خوش گوار تبدیلی کے امکان کی تائید نہیں کرتے تھے ، اس وقت ایک درویش بے نوانے تن تنہا اس انقلاب کا بیڑا اٹھایا او راپنے یقین وایمان ، عزم وتوکل اور روحانیت وللہیت سے سلطنت کے اندر ایک ایسا اندرونی انقلاب شروع کیا کہ سلطنت مغلیہ کا ہر جانشین اپنے پیشرو سے بہتر ہونے لگا، یہاں تک کہ کہ اکبر کے تخت سلطنت پر بالآخر محی الدین اورنگ زیب نظر آیا، اس انقلاب کے بانی، امام طریقت حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی تھے۔
انیسویں صدی عیسوی میں جب عالم اسلام پر فرنگی” تاتاریوں“ یا مجاہدین صلیب کی یورش ہوئی تو ان کے مقابلہ میں عالم اسلام کے ہر گوشہ میں جو مردان کار سر سے کفن باندھ کر میدان میں آئے ، وہ اکثر وبیشتر شیوخ طریقت اور اصحاب سلسلہ بزرگ تھے ، جن کے تزکیہ نفس اور سلوک راہ نبوت نے ان میں دین کی حمیت ، کفر کی نفرت، دنیا کی حقارت اور شہادت کی موت کی قیمت دوسروں سے زیادہ پیدا کر دی تھی ، الجزائر (مغرب) میں امیر عبدالقادر نے فرانسیسیوں کے خلاف علم جہاد بلند کیا اور 1832ء سے 1847ء تک نہ خود چین سے بیٹھے، نہ فرانسیسیوں کو چین سے بیٹھنے دیا، مغربی مؤرخین نے ان کی شجاعت، عدل وانصاف، نرمی ومہربانی اور علمی قابلیت کی تعریف کی ہے۔
یہ مجاہد عملاً وذوقاً صوفی وشیخ طریقت تھا او رامیر شکیب ارسلان نے ان الفاظ میں ان کا ذکر کیا ہے۔ ”وکان المرحوم الامیر عبدالقادر متضلعا من العلم والأدب، سامی الفکر، راسخ القدم فی التصوف لا یکتفی بہ نظرا احتی یمارسہ عمل،ا ولا یحن الیہ شوقاً، حتی یعرفہ ذوقا، ولہ فی التصوف کتاب سماہ (المواقف) فھو فی ھذا المشرب من الأفداد الأفذاذ، ربما لایوجد نظیرہ فی المتاخرین“․
امیر عبدالقادر پورے عالم وادیب، عالی دماغ اور بلند پایہ صوفی تھے ، صرف نظری طور پر نہیں، بلکہ عملاً اورذوقا بھی صوفی تھے، تصوف میں ان کی ایک کتاب ( المواقف) ہے، وہ اس سلسلہ کے یکتائے روز گار لوگوں میں تھے اور ممکن ہے کہ متاخرین میں ان کی نظیر دستیاب نہ ہو سکے۔
دمشق کے زمانہٴ قیام کے معمولات واوقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”وکان کل یوم یقوم الفجر، ویصلی الصبح فی مسجد قریب من دارہ، فی محلة العمارة، لا یتخلف عن ذلک، إلا لمرض، وکان یتھجد اللیل، ویمارس فی رمضان الریاضة علی طریقة الصوفیة، ومازال مثالا للبر والتقوی والأخلاق الفاضلة الی ان توفی رحمہ الله“․
روزانہ فجر کو اٹھتے، صبح کی نماز اپنے گھر کے قریب کی مسجد میں، جو محلہ العمارہ میں واقع ہے، پڑھتے، سوائے بیماری کی حالت کے کبھی اس میں ناغہ نہ ہوتا، تہجد کے عادی تھے اور رمضان میں حضرات صوفیہ کے طریقہ پر ریاضت کرتے ، برابر سلوک وتقوی اور اخلاق فاضلانہ پر قائم رہتے ہوئے1883ء میں انتقال کیا۔
1813ء میں جب طاغستان پر روسیوں کا تسلط ہوا تو ان کا مقابلہ کرنے والے نقش بندی شیوخ تھے،جنہوں نے علم جہاد بلند کیا اور اس کا مطالبہ اور جدوجہد کی کہ معاملات ومقدمات شریعت کے مطابق فیصل ہوں اور قوم کی جاہلی عادات کو ترک کر دیا جائے۔ امیر شکیب ارسلان لکھتے ہیں:۔
” وتولی کبر الثورة علماؤھم، وشیوخ الطریقة النقشبندیة المنتشرة ھناک، وکانھم سبقوا سائر المسلمین الی معرفة کون ضررھم ھو من امرائھم الذین اکثرھم یبیعون حقوق الامة بلقب ملک أوأمیر، وتبؤکرسی وسریر، ورفع علم کاذب، ولذة فارغة باعطاء أوسمة ومراتب، فثاروا منذذلک الوقت علی الامراء، وعلی الروسیة حامیتھم، وطلبوا أن تکون المعاملات وفقا لاصول الشریعة، للعادات القدیمة الباقیة من جاھلیة أولئک الأقوام، وکان زعیم تلک الحرکة غازی محمد، الذی یلقبہ الروس بقاضی ملا، وکان من العلماء المتبحرین فی العلوم العربیة، ولہ تالیف فی وجوب نبذ تلک العادات القدیمة المخالفة للشرع، إسمہ اقامة البرھان علیٰ ارتداد عرفاء طاغستان)“․
اس جہاد کے علم بردار طاغستان کے علماء اور طریقہٴ نقش بندیہ کے (جوطاغستان میں پھیلاہو اہے) شیوخ تھے ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس حقیقت کو عام مسلمانوں سے پہلے سمجھ لیا تھا کہ اصل نقصان حکام سے پہنچتا ہے ، جو خطابات ، عہد واقتدار، جھوٹی قیادت وسرداری، عیش ولذت اور تمغوں اور مرتبوں کی لالچ میں قوم فروشی کا ارتکاب کرتے ہیں ، یہ سمجھ کر انہوں نے ملکی حکام او ران کے حامی روسیو ں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور اس کا مطالبہ کیا کہ معاملات کا فیصلہ شریعت مطہرہ کے مطابق ہو نہ کہ قوم کے قدیم جاہلی عادات کے، اس تحریک کے قائد غازی محمد تھے،جن کو روسی ”غازی ملا“ کے لقب سے یاد کرتے ہیں، وہ علوم عربیہ میں بلند پایہ رکھتے تھے، ان جاہلی عادات کے ترک کرنے کے بارے میں ان کی ایک تصنیف ”اقامة البرھان علی ارتداد عرفاء طاغستان“ ( طاغستان کے چوہدریوں اور برادری کے سرداروں کے ارتداد کا ثبوت) ہے۔ 1832ء میں غازی محمد شہید ہوئے، ان کے جانشین حمزہ بے ہوئے ، اس کے بعد شیخ شامل نے مجاہدین کی قیادت سنبھالی، جو بقول امیر شکیب ” امیر عبدالقادر الجزائری کے طرز پر تھے اور مشیخت سے امارت ہاتھ میں لی تھی۔“
شیخ شامل نے 25 بر س تک روس سے مقابلہ جاری رکھا اور مختلف معرکوں میں ان پر زبردست فتح حاصل کی ، روسی ان کی شوکت اور شجاعت سے مرعوب تھے اور چند مقامات کو چھوڑ کر سارے ملک سے بے دخل ہو گئے تھے، 1843ء اور 1844ء میں شیخ نے ان کے سارے قلعے فتح کر لیے اور بڑا جنگی سامان مال غنیمت میں حاصل کیا، اس وقت حکومت روس نے اپنی پوری توجہ طاغستان کی طرف مبذول کی، طاغستان میں جنگ کرنے کے لیے باقاعدہ دعوت دی، شعراء نے نظمیں لکھیں اور پے درپے فوجیں روانہ کی گئیں، شیخ شامل نے اس کے باوجود بھی مزید دس برس تک جنگ جاری رکھی، بالآخر1859ء میں اس مجاہد عظیم نے ہتھیار ڈالے۔
تصوف وجہاد کی جامعیت کی درخشاں مثال سیدی احمد الشریف السنوسی کی ہے ،اطالویوں نے برقہ وطرابلس کی فتح لیے پندرہ دن کا اندازہ لگایا تھا، نو آبادیوں او رآبادیوں کی جنگ کا تجربہ رکھنے والے انگریز قائدین نے اس پر تنقید کی او رکہا کہ یہ اطالویوں کی ناتجربہ کاری ہے، اس مہم میں ممکن ہے ، تین مہینے لگ جائیں ، لیکن نہ پندرہ دن نہ تین مہینے ، اس جنگ میں پورے تیرہ برس لگ گئے اور اطالوی پھر بھی اس علاقہ کو مکمل طریقہ پر سر نہ کرسکے، یہ سنوسی درویشوں اور ان کے شیخ طریقت سید احمد الشریف السنوسی کی مجاہدانہ جدوجہد تھی، جس نے اٹلی کو پندرہ سال تک اس علاقے میں قدم جمانے نہیں دیا ،امیر شکیب ارسلان نے لکھا ہے کہ سنوسیوں کے کارنامہ نے ثابت کر دیا کہ طریقہ سنوسیہ ایک پوری حکومت کا نام ہے ، بلکہ بہت سی حکومتیں بھی ان جنگی وسائل کی مالک نہیں ہیں ، جو سنوسی رکھتے ہیں ، خود سیدی احمد الشریف کے متعلق ان کے الفاظ ہیں : 
”وقد لحظت منہ صبراً قل أن یوجد فی غیرہ من الرجال، و عزما شدیدا تلوح سیماء ہ علی وجہہ، فبینما ھو فی تقواہ من الأبدال، اذا ھو فی شجاعتہ من الأبطال․“
مجھے سید سنوسی میں غیر معمولی صبر وثابت قدمی دکھائی دی، جو کم لوگوں میں دیکھی، اولو العزمی ان کی ناصیہٴ اقبال سے ہویدا ہے ، ایک طرف اپنے تقوی اور عبادت کے لحاظ سے اگر وہ اپنے زمانے کے ابدال میں شمار ہونے کے قابل ہیں تو دوسری طرف شجاعت کے لحاظ سے دلیران زمانہ کی صف میں شامل ہونے کے مستحق ہیں۔
امیر شکیب نے صحرائے اعظم افریقا کی سنوسی خانقاہ کی جو تصویر کھینچی ہے ، وہ بڑی دل آویزاور سبق آموز ہے، یہ خانقاہ ”واحة الکفرہ“ میں واقع تھی اور سید احمد الشریف کے چچا اور شیخ السید المہدی کے انتظام میں تھی اور افریقا کا سب سے بڑا روحانی مرکز اور جہاد کا دار التربیت تھی ، امیر مرحوم لکھتے ہیں:
” سید مہد ی صحابہ وتابعین کے نقش قدم پر تھے ، وہ عبادت کے ساتھ بڑے عملی آدمی تھے ، ان کومعلوم تھا کہ قرآنی احکام حکومت واقتدار کے بغیر نافذ نہیں ہوسکتے، اس لیے وہ اپنے برادران طریقت او رمریدین کو ہمیشہ شہسواری، نشانہ بازی کی مشق کی تاکید کرتے رہتے ، ان میں غیرت اورمستعدی کی روح پھونکتے، ان کو گھوڑدوڑ او رسپہ گری کا شوق دلاتے رہتے او رجہاد کی فضیلت واہمیت کا نقش ان کے دل پر قائم کرتے ، ان کی یہ کوششیں بار آور ہوئی اور مختلف مواقع پر اس کے اچھے نتائج برآمد ہوئے ، خصوصاً جنگ طرابلس میں سنوسیوں نے ثابت کر دیا کہ ان کے پاس ایسی مادی قوت ہے ، جو بڑی بڑی حکومتوں کی طاقت سے ٹکر لے سکتی ہے او ربڑی باجبروت سلطنتوں کا مقابلہ کر سکتی ہے ، صرف جنگ طرابلس ہی میں سنوسیوں کا جوش وغضب ظاہر نہیں ہوا ، بلکہ علاقہٴ کانم اور وادی ( سوڈان) میں وہ 1319ھ سے 1332ھ تک فرانسیسیوں سے برسر جنگ رہے۔
سید احمد الشریف نے مجھے بتایا کہ ان کے چچا سید مہدی کے پاس پچاس ذاتی بندوقیں تھیں ،جن کو وہ بڑے اہتمام کے ساتھ اپنے ہاتھ سے صاف کرتے تھے ، اگرچہ ان کے سیکڑوں کی تعداد میں مریدین تھے ، مگر وہ اس کے روادار نہیں تھے کہ یہ کام کوئی اور کرے ، تاکہ لوگ ان کی اقتدا کریں اور جہاد کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کے سامان وذخائر کا اہتمام کریں ، جمعہ کا دن جنگی مشقوں کے لیے مخصوص تھا، گھوڑوں کی ریس ہوتی، نشانہ کی مشق ہوتی وغیرہ وغیرہ، خود سید ایک بلند جگہ پر تشریف فرما ہوتے، شہسوار دو حصوں (پارٹیوں) میں تقسیم ہو جاتے اور دوڑ شروع ہوتی ، یہ سلسلہ دن چھپے تک جاری رہتا، کبھی کبھی نشانہ مقرر ہوتا اور نشانہ بازی شروع ہوتی، اس وقت علما اور مریدین کا نمبر نشانہ بازی میں بڑا ہوتا، کیوں کہ ان کے شیخ کی ان کے لیے خاص تاکید تھی، جو لوگ گھوڑ دوڑ میں پالا جیت لیتے یا نشانہ بازی میں بازی لے جاتے ، ان کو قیمتی انعامات ملتے، تاکہ جنگی کمالات کا شوق ہو ، جمعرات کا دن دست کاری او راپنے ہاتھ سے کام کرنے کے لیے مقرر تھا ،اس دن اسباق بند ہو جاتے ،مختلف پیشوں اور صنعتوں میں لوگ مشغول ہوتے، کہیں تعمیر کا کام ہو رہا ہوتا، کہیں نجار ی، کہیں لوہاری، کہیں پارچہ بافی، کہیں وراقی کا مشغلہ نظر آتا، اس دن جو شخص نظر آتا وہ اپنے ہاتھ سے کام کرتا دکھائی دیتا ، خود سید مہدی بھی پورے مشغول رہتے ، تاکہ لوگوں کو عمل کا شوق ہو ، سید مہدی اور ان سے پہلے ان کے والد ماجد کو زراعت او ردرخت لگانے کا بڑا اہتمام تھا ، اس کا ثبوت ان کی خانقا ہیں اور ان کے خانہ باغ ہیں ، کوئی سنوسی خانقاہ ایسی نہیں ملے گی جس کے ساتھ ایک یا چند باغات نہ ہوں ، وہ نئے نئے قسم کے درخت دو ر دراز مقامات سے اپنے شہروں میں منگواتے تھے ، انہوں نے کفرہ اورجغبو میں ایسی ایسی زراعتیں او ردرخت روشناس کیے ، جن کو وہاں کوئی جانتا بھی نہ تھا ، بعض طلبا سید محمد السنوسی (بانی سلسلہٴ سنوسیہ) سے کیمیا سکھانے کی درخواست کرتے تھے تو وہ فرماتے تھے کہ کیمیا ہل کے نیچے ہے او رکبھی فرماتے کیمیا کیا ہے ؟ ہاتھ کی محنت اور پیشانی کا پسینہ۔ وہ طلباء او رمریدین کو پیشوں اورصنعتوں کا شوق دلاتے اور ایسے جملے فرماتے جن سے ان کی ہمت افزائی ہوتی اور وہ اپنے پیشوں اور صنعتوں کو حقیر نہ سمجھتے اور نہ ان میں علماء کے مقابلہ میں احساس کمتری پیدا ہوتا ، چناں چہ فرماتے تھے کہ بس تم کو حسن نیت اور فرائض کی پابندی کا فی ہے، دوسرے تم سے افضل نہیں، کبھی کبھی اپنے کو بھی پیشہ وروں میں شامل کرکے اور ان کے ساتھ کام میں شرکت کرتے ہوئے فرماتے۔ ” کیا یہ کاغذوں والے ( علماء) اور تسبیحوں والے ( ذاکرین وصوفیہ) سمجھتے ہیں کہ وہ ہم پر الله تعالیٰ کے یہاں سبقت لے جائیں گے، نہیں خدا کی قسم !وہ ہم سے کبھی سبقت نہیں لے جاسکتے۔“
ہندوستان میں تصوف وجہاد کا ایسا عجیب امتزاج واجتماع ملتا ہے جس کی نظیر دور دور ملنی مشکل ہے ، اس سلسلہ میں حضرت سید احمد شہید کا تذکرہ تحصیل حاصل ہے کہ ان کی یہ جامعیت مسلمات میں سے ہے او رحد تواتر کو پہنچ چکی ہے، ان کے رفقائے جہاد او ران کے تربیت یافتہ اشخاص کے جوش جہاد ، شوق شہادت، محبت دینی، بغض فی الله کے واقعات قرون اولی کی یاد تازہ کرتے ہیں ، جب کبھی ان کے مفصل واقعات سامنے آئیں گے تو اندازہ ہو گا کہ یہ قرن اول کا ایک بچا ہوا ایمانی جھونکا تھا، جو تیرھویں صدی میں چلا تھا اور جس نے دکھا دیا تھا کہ ایمان، توحید اور صحیح تعلق بالله اور راہ نبوت کی تربیت وسلوک میں کتنی قوت او رکیسی تاثیر ہے اور بغیر صحیح روحانیت او راصلاح کے پختہ جوش وجذبہ او رایثار وقربانی اور جاں سپاری کی امید غلط ہے۔
سید صاحب کے جانشینوں میں مولانا سید نصیر الدین او رمولانا ولایت علی عظیم آباد ی، سید صاحب کے پرتوتھے، ان کے جانشینوں میں مولانا یحییٰ علی اور مولانا احمد الله صادق پوری بھی دونوں حیثیتوں کے جامع تھے، ایک طرف ان کے جہاد وابتلا او رامتحان کے واقعات امام احمد بن حنبل کی یاد تازہ کرتے ہیں اور وہ کبھی گھوڑے کی پیٹھ پر، کبھی انبالہ کے پھانسی گھر میں، کبھی جزیرہ انڈمان میں محبوس نظر آتے ہیں، دوسرے وقت وہ سلسلہٴ مجددیہ وسلسلہ محمدیہ ( سید صاحب کے خصوصی سلسلہ) میں لوگوں کی تربیت وتعلیم میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔در کفے جام شریعت در کفے سندان عشقہر ہوسناکے نداند جام وسندان باختنہندوستان کی پوری اسلامی تاریخ کی مجاہدانہ جدوجہد اور قربانیاں اگر ایک پلڑے میں رکھی جائیں او راہل صادق پور کی جدوجہد اور قربانیاں دوسرے پلڑے پر تو شاید یہی پلڑا بھاری رہے۔
ان حضرات کے بعد بھی ہم کو اہل سلسلہ اور اصحاب ارشاد ، دینی جدوجہد اور جہاد فی سبیل الله کے کام سے فارغ اور گوشہ گیر نہیں نظر آتے، شاملی کے میدان میں حضرت حاجی امداد الله ، حضرت حافظ ضامن ، مولانا محمد قاسم اورمولانا رشید احمد گنگورحمة الله علیہم، انگریزوں کے خلاف صف آرا نظر آتے ہیں ، حضرت حافظ ضامن وہیں شہید ہوتے ہیں ، حاجی صاحب کو ہندوستان سے ہجرت کرنی پڑتی ہے ، مولانا نانوتوی اور مولانا گنگوہی کو عرصہ تک گوشہ نشین اور مستور رہنا پڑتا ہے۔
پھر مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ الله (جن کو ہندوستان کے مسلمانوں نے بجا طور پر شیخ الہند کے لقب سے یاد کیا) انگریزوں کے خلاف جہاد کی تیاری کرتے ہیں اور ہندوستان کو ان کے وجود سے پاک کرکے ایک ایسی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں ، جس میں مسلمانوں کا اقتدار اعلیٰ اور ان کے ہاتھ میں ملک کا زمام کارہو ، ان کی بلند ہمتی ان کو ترکی سے تعلقات قائم کرنے اور ہندوستان وافغانستان وترکی کو ایک سلسلہٴ جہاد میں منسلک کرنے پر آمادہ کرتی ہے ، ریشمی خطوط او رانورپاشا کی ملاقات، مالٹا کی اسارت ان کی عالی ہمتی او رقوت عمل کا ثبوت ہے۔ 
﴿من المومنین رجال صدقوا ما عاھدوا الله علیہ فمنھم من قضی نحبہ ومنھم من ینتظر وما بدلوا تبدیلا﴾․
ان مسلسل تاریخی شہادتوں کی موجودگی میں یہ کہنا کہاں تک صحیح ہو گا کہ تعطل وبے عملی حالات کے مقابلہ میں سپر اندازی اور پسپائی تصوف کے لوازم میں سے ہے، اگر اس دعوے کے ثبوت میں چند متصوفین او راصحاب طریقت کی مثالیں ہیں تو اس کے خلاف بڑی تعداد میں ان ائمہ فن اورشیوخ طریقت کی مثالیں ہیں، جو اپنے مقام اور رسوخ فی الطریقہ میں بھی اول الذکر اصحاب سے بڑھے ہوئے ہیں۔
اگر تصوف اپنی صحیح روح اور سلوک راہ نبوت کے مطابق ہو اور یقین ومحبت پیدا ہونے کا باعث ہو ( جو اس کے اہم ترین مقاصد ونتائج ہیں ) تو اس سے قوت عمل، جذبہ جہاد ، عالی ہمتی ، جفاکشی اور شوق شہادت پیدا ہونا لازمی ہے، جب محبت الہی کا چشمہ دل سے ابلے گا ، تو روئیں روئیں سے یہ صدا بلند ہو گی۔اے آنکہ زنی دم از محبتاز ہستی خویشتن پرہیزبر خیز وبہ تیغ تیز بنشینیا از رہ راہ دوست برخیز


عقل اور ہدایت


عقل اور ہدایت
آیات الہی سے مندرجہ بالا نتائج ماخوذ کرنے کی تائید میں ہم یہاں ایک واقعہ درج کرتے ہیں جو علامہ عنایت اللہ خاں مشرقی کو اس دوران پیش آیا جب وہ انگلستان میں زیر تعلیم تھے، وہ کہتے کہ:
1909ء کا ذکر ہے۔ اتوار کا دن تھا اور زور کی بارش ہو رہی تھی۔ میں کسی کام سے باہر نکلا تو جامعہ چرچ کے مشہور ماہر فلکیات پروفیسر جیمس جینز بغل میں انجیل دبائے چرچ کی طرف جا رہے تھے، میں نے قریب ہو کر سلام کیا تو وہ متوجہ ہوئے اور کہنے لگے، "کیا چاہتے ہو؟" میں نے کہا، "دو باتیں، پہلی یہ کہ زور سے بارش ہو رہی ہے اور آپ نے چھاتہ بغل میں داب رکھا ہے۔" سر جیمس جینز اس بدحواسی پر مسکرائے اور چھاتہ تان لیا۔" پھر میں کہا، "دوم یہ کہ آپ جیسا شہرہ آفاق آدمی گرجا میں عبادت کے لئے جا رہا ہے۔" میرے اس سوال پر پروفیسر جیمس جینز لمحہ بھر کے لئے رک گئے اور میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا، "آج شام میرے ساتھ چائے پیو۔"
چنانچہ میں چار بجے شام کو ان کی رہائش گاہ پر پہنچا، ٹھیک چار بجے لیڈی جیمس باہر آ کر کہنے لگیں، "سر جیمس تمہارے منتظر ہیں۔" اندر گیا تو ایک چھوٹی سی میز پر چائے لگی ہوئی تھی۔ پروفیسر صاحب تصورات میں کھوئے ہوئے تھے، کہنے لگے، "تمہارا سوال کیا تھا؟" اور میرے جواب کا انتظار کئے بغیر، اجرام سماوی کی تخلیق، اس کے حیرت انگیز نظام، بے انتہا پہنائیوں اور فاصلوں، ان کی پیچیدہ راہوں اور مداروں، نیز باہمی روابط اور طوفان ہائے نور پر ایمان افروز تفصیلات پیش کیں کہ میرا دل اللہ کی اس کبریائی و جبروت پر دہلنے لگا۔
     ان کی اپنی یہ کیفیت تھی کہ سر کے بال سیدھے اٹھے ہوئے تھے۔ آنکھوں سے حیرت و خشیت کی دوگونہ کیفیتیں عیاں تھیں۔ اللہ کی حکمت و دانش کی ہیبت سے ان کے ہاتھ قدرے کانپ رہے تھے اور آواز لرز رہی تھی۔ فرمانے لگے، "عنایت اللہ خان! جب میں خدا کی تخلیق کے کارناموں پر نظر ڈالتا ہوں تو میری ہستی اللہ کے جلال سے لرزنے لگتی ہے اور جب میں کلیسا میں خدا کے سامنے سرنگوں ہو کر کہتا ہوں: "تو بہت بڑا ہے۔" تو میری ہستی کا ہر ذرہ میرا ہمنوا بن جاتا ہے۔ مجھے بے حد سکون اور خوشی نصیب ہوتی ہے۔ مجھے دوسروں کی نسبت عبادات میں ہزار گنا زیادہ کیف ملتا ہے، کہو عنایت اللہ خان! تمہاری سمجھ میں آیا کہ میں کیوں گرجے جاتا ہوں۔"
     علامہ مشرقی کہتے ہیں کہ پروفیسر جیمس کی اس تقریر نے میرے دماغ میں عجیب کہرام پیدا کر دیا۔ میں نے کہا، "جناب والا! میں آپ کی روح پرور تفصیلات سے بے حد متاثر ہوا ہوں، اس سلسلہ میں قرآن مجید کی ایک آیت یاد آ گئی ہے، اگر اجازت ہو تو پیش کروں؟" فرمایا، "ضرور!" چنانچہ میں نے یہ آیت پڑھی۔
و مِنْ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌ۔ وَمِنْ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ كَذَلِكَ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (فاطر 35:27-28)
"اور پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگوں کے قطعات ہیں اور بعض کالے سیاہ ہیں، انسانوں، جانوروں اور چوپایوں کے بھی کئی طرح کے رنگ ہیں۔ خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں۔"
یہ آیت سنتے ہی پروفیسر جیمس بولے، "کیا کہا؟ اللہ سے صرف اہل علم ہی ڈرتے ہیں؟ حیرت انگیز، بہت عجیب، یہ بات جو مجھے پچاس برس کے مسلسل مطالعہ سے معلوم ہوئی، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کس نے بتائی؟ کیا قرآن میں واقعی یہ بات موجود ہے؟ اگر ہے تو میری شہادت لکھ لو کہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے، محمد تو ان پڑھ تھے، انہیں یہ حقیقت خود بخود نہ معلوم ہو سکتی تھی۔ یقیناً اللہ تعالی نے انہیں بتائی تھی۔ بہت خوب! بہت عجیب۔ (علم جدید کا چیلنج از وحید الدین خان)

شاعری











ہفتہ، 20 اکتوبر، 2012

ترانہ ناموس رسالت


ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے



ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے


بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

اک کھیل ہے اورنگ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے

جز نام نہیں صورت عالم مجھے منظور
جز وہم نہیں ہستی اشیا مرے آگے

ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے

مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے

سچ کہتے ہو خود بین و خود آرا ہوں، نہ کیوں ہوں
بیٹھا ہے بت آئینہ سیما مرے آگے

پھر دیکھئے انداز گل افشانی گفتار
رکھ دے کوئی پیمانہ صہبا مرے آگے

نفرت کا گماں گزرے ہے، میں رشک سے گزرا
کیوں کر کہوں لو نام نہ ان کا مرے آگے

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا مرے آگے